علی گڑھ: ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ مصنف آل احمد سرور اردو ادبی دنیا میں ایک اہم نام، جو نقاد اور شاعر تھے۔آپ کی پیدائش ضلع بدایوں میں 1912 اور وفات 9 فروری 2002 کو دہلی میں ہوئی۔ آگرہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے بزم کو خطاب کرتے ہوئے آل احمد سرور کے حوالے سے پیش کئے گئے مقالوں اور مضامین کو سراہا۔ انہوں نے آل احمد سرور کی نثر کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ”خواب باقی ہیں“ کے کئی اہم اقتباسات پیش کیے۔
پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ آل احمد سرور ارتقائی نظریہ کے قائل تھے وہ کبھی کسی تحریک یا رجحان کے پابند نہیں تھے۔ وہ متن کے معنی تلاش کرکے اس سے نتیجہ مستخرج کرتے تھے۔ پروفیسر سراج الدین اجملی نے طلباء کی حوصلہ افزائی کی اور تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر امتیاز احمد نے آل احمد سرور منظر پس منظر کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے آل احمد سرور کی تمام تصنیفات و مقالات پر روشنی ڈالی۔
صدر جلسہ پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے اپنی تقریر میں آل احمد سرور کے تنقیدی رویوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ آل احمد سرور جیسا ناقد بننے کے لئے طلباء کو خوب سے خوب مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے طلبا میں بہت سی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں ان کو اس طرح کے جلسے سے نکھارا اور سنوارا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا اشعار موزوں پڑھنے کی عادت ڈالیں، جس سے ان کے اندر صحیح شعر پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے آل احمد سرور کی شخصیت اور ان کی خدمات کو ازسرِنو ایک خوبصورت انداز میں پیش کرنے کے لیے بزم شہریار کے کنوینر ڈاکٹر محمد خالد سیف اللہ اور صدر شعبہ کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ طلبا ء کی ذہنی تربیت کرنے کے لیے اس طرح کے پروگرام منعقد کرنا بہت ضروری ہے۔