آزادی سے پہلے میرِس نام کے ایک انگریز نے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن سے لے کر سول لائن تھانے کے علاقے تک بنجر پڈی زمین پر تین تین ہزار گز کے پلاٹ کاٹ کر اس وقت کے نوابوں اور زمینداروں کو گھر بنانے کا حکم دیا تھا۔
انگریز میرس کے نام پر ہی موجودہ 'میرس روڈ' کا نام رکھا گیا ہے اور اسی میرِس روڈ پر علی گڑھ کے زیادہ تر نوابوں کی کوٹھیاں ہیں جس کی وجہ سے علی گڑھ کو نوابوں کے شہر سے بھی جانا جاتا ہے۔
نواب حبیب الرحمٰن خان شیروانی کی بنائی ہوئی موجودہ وقت میں سب سے خوبصورت 'حبیب منزل' بھی اسی میرِس روڈ پر موجود ہے۔
نواب حبیب الرحمن خان شروانی کے پڑ پوتے مدیح الرحمن خان شروانی کے مطابق حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی جب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی(aligarh muslim university) کے چانسلر کی حیثیت سے علی گڑھ تشریف لائے تو اسی حبیب منزل کو دیکھ کر حبیب الرحمن خان شیروانی سے کہا تھا کہ 'حبیب الرحمن تو نے اپنے رہنے کے لیے چھوٹا سا مکان اچھا بنوا لیا ہے ظاہر ہے نواب حیدرآباد کی کوٹھی کے مقابلے یہ چھوٹا سا جھونپڑا ہی ہے۔ یہ اتنی بڑی کوٹھی ہے لیکن اس سے بڑی بڑی نوابوں کی کوٹھیاں بھی موجود ہیں جن کے سامنے یہ ایک چھوٹی سی کوٹھی لگتی ہے۔'
نواب حبیب الرحمن خان شیروانی کے پڑ پوتے مدیح الرحمٰن خان شروانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 'یہ کوٹھی سنہ 1934 میں بن کر مکمل ہوئی تھی۔ اسے نواب حبیب الرحمن خان شیروانی نے بنوایا تھا اور انہی کے نام پر اس کا نام 'حبیب منزل' ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس عمارت کی اہمیت یہ رہی کہ جب یہ بن کر تیار ہوئی تھی تو اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کوئی بھی اچھا مہمان خانہ نہیں تھا جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں جب بھی کوئی مہمان آتے تو وہ اسی حبیب منزل میں قیام کیا کرتے تھے۔ جس میں محمد علی جناح، مولانا آزاد کا نام شامل ہے۔