اردو

urdu

ETV Bharat / state

'علی گڑھ کی تاریخی حبیب منزل آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے' - nawab habibur rahman khan sherwani

ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ سول لائن علاقے کے میرس روڈ پر موجود 22 سے زیادہ کمروں کی 22 ہزار اسکوائر میٹر زمین پر بنی تاریخی اہمیت کی حامل علیگڑھ حبیب منزل میں محمد علی جناح، مولانا آزاد، حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی سمیت بہت سی سیاسی شخصیات نے قیام کیا تھا۔

تاریخی حبیب منزل
تاریخی حبیب منزل

By

Published : Jun 13, 2021, 9:44 PM IST

آزادی سے پہلے میرِس نام کے ایک انگریز نے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن سے لے کر سول لائن تھانے کے علاقے تک بنجر پڈی زمین پر تین تین ہزار گز کے پلاٹ کاٹ کر اس وقت کے نوابوں اور زمینداروں کو گھر بنانے کا حکم دیا تھا۔

تاریخی حبیب منزل

انگریز میرس کے نام پر ہی موجودہ 'میرس روڈ' کا نام رکھا گیا ہے اور اسی میرِس روڈ پر علی گڑھ کے زیادہ تر نوابوں کی کوٹھیاں ہیں جس کی وجہ سے علی گڑھ کو نوابوں کے شہر سے بھی جانا جاتا ہے۔

نواب حبیب الرحمٰن خان شیروانی کی بنائی ہوئی موجودہ وقت میں سب سے خوبصورت 'حبیب منزل' بھی اسی میرِس روڈ پر موجود ہے۔

نواب حبیب الرحمن خان شروانی کے پڑ پوتے مدیح الرحمن خان شروانی کے مطابق حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی جب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی(aligarh muslim university) کے چانسلر کی حیثیت سے علی گڑھ تشریف لائے تو اسی حبیب منزل کو دیکھ کر حبیب الرحمن خان شیروانی سے کہا تھا کہ 'حبیب الرحمن تو نے اپنے رہنے کے لیے چھوٹا سا مکان اچھا بنوا لیا ہے ظاہر ہے نواب حیدرآباد کی کوٹھی کے مقابلے یہ چھوٹا سا جھونپڑا ہی ہے۔ یہ اتنی بڑی کوٹھی ہے لیکن اس سے بڑی بڑی نوابوں کی کوٹھیاں بھی موجود ہیں جن کے سامنے یہ ایک چھوٹی سی کوٹھی لگتی ہے۔'

نواب حبیب الرحمن خان شیروانی کے پڑ پوتے مدیح الرحمٰن خان شروانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 'یہ کوٹھی سنہ 1934 میں بن کر مکمل ہوئی تھی۔ اسے نواب حبیب الرحمن خان شیروانی نے بنوایا تھا اور انہی کے نام پر اس کا نام 'حبیب منزل' ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس عمارت کی اہمیت یہ رہی کہ جب یہ بن کر تیار ہوئی تھی تو اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کوئی بھی اچھا مہمان خانہ نہیں تھا جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں جب بھی کوئی مہمان آتے تو وہ اسی حبیب منزل میں قیام کیا کرتے تھے۔ جس میں محمد علی جناح، مولانا آزاد کا نام شامل ہے۔

مدیح الرحمٰن خان نے مزید کہا کہ 'جب مولانا آزاد جیل میں تھے تو انہوں نے میرے دادا کے نام خطوط بھی لکھے اور حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی سمیت کئی سیاسی شخصیات نے یہاں پر قیام کیا تھا۔

مدیح الرحمٰن خان شیروانی نے بتایا کہ 'مرحوم نواب حبیب الرحمن خان شیروانی ریاست حیدرآباد میں وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے تھے۔ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو انہوں نے حیدرآباد میں عثمانیہ یونیورسٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس حبیب منزل کی ایک خاص بات یہ رہی کہ جیسے یہ کوٹھی بنی تھی ویسے ہی آج بھی محفوظ ہے کوئی بھی زمین فروخت نہیں کی گئی۔ کوئی دکان یا بازار وغیرہ نہیں کھولی تاکہ اس کی خوبصورتی اور اہمیت برقرار رہ سکے۔ سنہ 1934 سے لے کر آج تک تقریباً 87 برس میں اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔

اس تاریخی حبیب منزل میں داخلہ اور خارجی دروازے الگ الگ ہیں جو سیمی سرکولر ہیں۔ دونوں دروازوں کے درمیان میدان ہے جس میں گھاس اور پیڑ پودے وغیرہ ہیں۔ اس کے بعد جب آپ عمارت کے بیچ میں داخل ہوں گے تو اس میں دو بڑے ہال ہیں جس میں ایک بڑا ڈائننگ ہال ہے جہاں بہ یک وقت تقریباً 70 افراد ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ اس کے اندر ایک بڑی گول میز موجود ہے اسی طرح دوسرا اتنا ہی بڑا ڈرائنگ روم ہے جس میں صوفے وغیرہ پڑے ہوئے ہیں۔

اس حبیب منزل میں کُل 20 یا 22 بیڈ رومز ہیں اس کے علاوہ دیگر کمرے، اسٹور، دفاتر وغیرہ بھی ہیں۔ اس میں زیادہ تر کمرے بند رہتے ہیں کیونکہ ان کا استعمال نہیں ہوتا یہ محض صاف صفائی کے لیے کھولے جاتے ہیں۔

دو بڑے کمروں کے پیچھے کا حصہ زنان خانہ ہے جس میں صرف خواتین رہتی تھیں اور عمارت کا نچلا حصہ میں مرد رہتے تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details