علی گڑھ:اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ جغرافیہ کے زیر اہتمام 'ہندوستان میں زراعت، ماحولیات اور پائیدارترقی: آزادی کے بعد کا منظر نامے موضوع پر منعقدہ دوروزہ قومی کانفرنس کے انعقاد میں آئی سی ایس ایس آر اور ڈی ایس ٹی ڈپارٹمنٹ آف ارتھ سائنسز حکومت ہند کا تعاون شامل رہا۔ Conference On Agriculture Environment And Sustainable Development In AMU
Conference on Agriculture And Environment زراعت، ماحولیات اور پائیدار ترقی پر دو روزہ کانفرنس
ہندوستانی معیشت میں زراعت کی حصہ داری بہت زیادہ رہی ہے، حالانکہ موجودہ وقت میں بڑے پیمانے پر نامیاتی کاشتکاری کو اپنانے اور ماحولیات اور قدرتی ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے پائیدار ترقی پر توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔ ان تاثرات کا اظہار ماہرین نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہندوستان میں زراعت، ماحولیات اور پائیدارترقی کے عنوان سے منعقدہ قومی کانفرنس میں کیا۔ AMU
اختتامی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر وی کے سریواستو (سابق سربراہ شعبہ، ڈی ڈی یو یونیورسٹی، گورکھپور) نے کہا کہ روایتی زراعت، سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے دیہی اور قبائلی علاقوں کی ایک اہم سرگرمی تھی۔ روایتی زراعت میں مخلوط کھیتی فصلوں کی گردش اور ملچنگ (Mulching) چند رائج سائنسی طریقے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 سے 4 دہائیوں کے دوران تجارتی وجوہات سے زیادہ استحصال کے باعث جنگلات کی تباہی نے زمین کی پیداواری صلاحیت کو کم کیا ہے۔ اس کی وجہ سے مٹی کا بڑے پیمانے پر کٹاؤ ہوا ہے اور زمین کے دوبارہ بہتر ہونے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے جس سے قدرتی نباتاتی نظام اور پانی کے وسائل متاثر ہوئے ہیں۔ پروفیسر سریواستو نے کہا فصلوں کا تنوع مٹی کے معیار کو بہتر کرنا، آب پاشی کے نظام کو درست کرنا اور کسانوں اور کمیونٹیز کے طرز زندگی کے ساتھ ساتھ ایکوسسٹم اور ماحولیات کی بھلائی کو دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
مہمان اعزازی پروفیسر اسلم معبود (مرکز براۓ علاقائی ترقی، جے این یو) نے کہا کہ زراعت، ماحولیات اور پائیدار ترقی میں خواتین اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا ”پائیدار ترقی کا انحصار آج اور مستقبل کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم پر ہے۔ یہ صنفی مساوات کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے خواتین گروپوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ موجودہ معاشی ترقی اور عالمگیریت کا نظام امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھارہا ہے، جس سے مردوں کو خواتین سے زیادہ فائدہ ہور ہا ہے، اور ماحولیاتی انحطاط میں اضافہ ہور ہاہے۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر وائی وی این کردن مورتی (سینئر پروفیسر اور رجسٹرار، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹکنالوجی محکمہ خلائی سائنس، حکومت ہند) نے پائیدار زرعی ترقی اور کرہ ارض کی آب و ہوا کے توازن کو برقرار رکھنے میں جیو اسپیشئل ٹکنالوجی کی اہمیت کو بیان کیا۔
انھوں نے کہا ”ہندوستان کے زرعی تحقیق و توسیعی نظام کو مضبوط بنانا پائیدار زرعی ترقی کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ یہ خدمات وقت کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے اور آپریشنز کے شعبہ میں کم فنڈنگ کی وجہ سے کمزور ہوتی گئیں۔ فصلوں میں تنوع کے لئے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور غربت والے علاقوں میں اسی زرعی ترقی کے لیے کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے"۔
Recruitment Drive at AMU اے ایم یو میں 13 نومبر کو ’سیراب‘ بھرتی میلہ
پروفیسر مورتی نے منڈیوں کو ترقی دینے اور زرعی قرضوں اور سرکاری بجٹ کو بڑھانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا ''ہندوستان میں زرعی مارکیٹنگ میں حکومت کی وسیع شمولیت نے اندرونی اور بیرونی تجارت میں پابندیاں پیدا کی ہیں۔ مارکیٹنگ، ویلیو چین اور ایگرو پروسیسنگ میں نجی شعبہ کی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے لیکن یہ اب بھی بہت کم ہے۔ پابندیوں کو ختم کرنا، کسانوں کے لیے دیہی مالیات تک رسائی کو بہتر بنانا اور قرض کا حصول آسان بنانا بھی ضروری ہے"۔
ممتاز سائنسدان ڈاکٹر مورتی نے بتایا مہاتما گاندھی کا کہنا تھا جس کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے 'ہندوستان میں ہمارے پاس ہماری ضرورت کے لیے کافی ہے لیکن لالچ کے لیے نہیں' شعبہ جغرافیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد مجتبا نے کانفرنس کو اہم بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کے مختلف مقامات سے کانفرنس کے موضوع سے متعلق تقریبا 250 رسرچ پیپرز آئے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان کی ایگریکلچرل اور ماحولیات میں کیا تبدیلیاں محسوس کی جا رہی ہیں اس پر ماہرین گفتگو کریں گے اس کے علاوہ زرعی اور ماحولیاتی پائیدار ترقی پر مہمانان اظہار خیال کریں گے۔ ڈاکٹر احمد نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا اس اہم کانفرنس سے اچھے نتائج سامنے آئیں اور کس طرح ہم ملک کی زرعی اور ماحولیات کو اور بہت بنا سکتے ہیں۔Conference On Agriculture Environment And Sustainable Development In AMU