اے ایم یو پوسٹ گریجویشن ڈاکٹرز کا احتجاج علی گڑھ: ریاست اترپردیش کے علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) طبیہ کالج کے پوسٹ گریجویشن (ایم ڈی یونانی) ڈاکٹرز نے گذشتہ 14 برسوں سے وظیفہ نہیں ملنے پر اپنے اجمل خاں طبیہ کالج سے یونیورسٹی انتظامیہ بلاک تک ایک احتجاجی مارچ نکال کر یونیورسٹی باب سید پر احتجاج کیا اور یونیورسٹی وائس چانسلر کے نام ایک میمورنڈم بھی دیا۔
اجمل خان طبیہ کالج میں چار سال کی بی یو ایم ایس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تین سال کا پوسٹ گریجویشن (ایم ڈی یونانی) کورس ہوتا ہے۔ اس دوران طلبہ کو تقریباً 90 ہزار روپے ماہ وظیفہ کی شکل میں دیے جاتے ہیں جو اے ایم یو طبیہ کالج کے کل 42 طلبہ میں سے محض 12 طلبہ کو ہی یونیورسٹی انتظامیہ دیتی ہے جب کہ داخلہ کے وقت یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وظیفہ ملے گا۔
پوسٹ گریجویشن (ایم ڈی یونانی) کورس کے طلباء کی او پی ڈی میں مریضوں کے علاج کے لئے ڈیوٹی میں لگائی جاتی ہے۔ طلبہ کو پڑھائی کے دوران وظیفے کی شکل میں (stipend) دیا جاتا ہے، لیکن گذشتہ 14 برسوں سے 39 طلبہ کو یہ نہیں دیا جا رہا ہے جس کے خلاف آج احتجاج کیا گیا اور وائس چانسلر کے نام ایک میمورنڈم بھی دیا۔
احتجاج کر رہے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کل 8 شعبوں میں سے پانچ شعبہ ایسے ہیں، جن کے طلبہ کو (stipend) نہیں دیا جارہا ہے لیکن باقی تین شعبوں کے طلبہ کو یہ دیا جا رہا ہے۔ ملک میں ہمارا واحد ایسا کالج ہے جن کے پوسٹ گرائجویشن کے طلبہ کو (stipend) نہیں دیا جا رہا ہے۔ اسی سے متعلق ہم نے آج یونیورسٹی انتظامیہ بلاک پر احتجاج کیا اور وائس چانسلر کے نام یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی کو ایک میمورنڈم بھی دیا۔
احتجاج کے دوران پوسٹ گریجویشن ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ انتظامیہ کی جانب سے کس طرح کا امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ ہمارا انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ہمارے مطالبات کو پورا کیا جائے۔ورنہ ہم کالج کو بند کر ایک بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:Aligarh Muslim University سپریم کورٹ اور بھارتی آئین کے ارتقاء پر جسٹس کرشن مراری کا اے ایم یو میں خطاب
انہوں نے کہاکہ انتظامیہ کو بھی ہمارے بارے میں سوچنا چاہیے۔بغیر پیسوں کے ہمیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پوسٹ گریجویشن کے دوران ہر طالب علم کو تقریبا 90 سے ایک لاکھ روپیہ دیا جاتا ہے جو گزشتہ 14 برسوں سے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ہم سے قبل بھی ہمارے سینئر اسکا مطالبہ کرتے کرتے یہاں سے چلے گئے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اس پر غور نہیں فرما رہا ہے۔