سنہ 2008 کو 19 ستمبر کے روز جب دہلی میں گولیاں چلیں تو پوری دہلی دہل اٹھی تھی۔ اس انکاؤنٹر کا اثر مرکزی دارالحکومت سے ہوتے ہوئے اترپردیش کے اعظم گڑھ تک ہوا۔
19 ستمبر کو ہوئے اس انکاونٹر کو فرضی انکاونٹر کہا جاتا ہے حالانکہ اب تک یہ پوری طرح واضح نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ انکاونٹر فرضی تھا۔ اس انکاونٹر میں کل تین لوگوں کی جان چلی گئی تھی، جن میں دو مشتبہ انڈین مجاہدین کے رکن آصف امین اور محمد ساجد اور آپریشن کی قیادت کرنے والے انسپکٹر موہن چند شرما کو گولی لگی اور تینوں کی جان چلی گئی۔
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں مرنے والے آصف امین اور محمد ساجد کا تعلق یو پی کے اعظم گڑھ سے تھا۔ آصف امین جامعہ ملیہ میں ماسٹرز کر رہے تھے، جبکہ محمد ساجد کی عمر محض 17 سال تھی۔
اس پورے معاملے میں اب تک کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچا جاسکا ہے چونکہ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ نہیں کرائی گئی ہے۔ سنہ 2013 میں ساکیت سیشن کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس انکاونٹر کو صحیح ٹھہرا تھا۔
اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں اس معاملے کو لیکر اجلاس ہوتے رہتے ہیں جن میں حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس سانحے کے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن روی نائک نے بتایا کہ 'بٹلہ ہاؤس متاثرین کو آج تک انصاف نہیں ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت بھی اس کیس کے ملزمین کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔'