بنارس:ای ٹی وی بھارت نے اپنے خاص پروگرام ایک شاعر کے تحت مشاعروں کے میدان میں ملک و بیرون ملک میں اپنی ایک الگ شناخت بنانے والے اور مخصوص و مترنم لب و لہجہ رکھنے والے نوجوان شاعر اپنے انداز و شاعری کے ذریعے سے نوجوانوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے ازہر اقبال سے مشاعروں و اردو ادب کے تعلق سے خصوصی گفتگو کی ہے جہاں انہوں نے بڑی بے باکی کے ساتھ تمام سوالات کا جوابات دیے ہیں۔ A special Interview with the famous Poet Azhar Iqbal under the Ek Shayar Program
ایک شاعر پروگرام، معروف شاعر ازہر اقبال سے خصوصی گفتگو یہ بھی پڑھیں:
شاعر ازہر اقبال نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ بہنیں افسانہ و ادبی رسائل وغیرہ پڑھا کرتی تھیں تقریباً گھر کے سبھی افراد مشاعروں و اردو سے وابستہ تھے تو میرا بھی رجحان شعر و شاعری کی طرف ہوا اور شعر کہنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ شاعری کا بڑا کام یہ ہے کہ وہ قربت کو پیدا کرتی ہے اور میں اپنی شاعری کے ذریعے سے بھی یہ کوشش کرتا ہوں کہ جو آپس میں تفریق ہے مذہب و ذات کے نام پر ایک نفرت کی دیوار قائم ہے اسے مسمار کردیا جائے اور لوگوں میں محبت و پیار کو عام کیا جائے تو مجھے سبھی مذاہب کے لوگ کسی تخصیص کے چاہتے ہیں اور محبتوں سے نوازتے ہیں۔ Interview with the famous Poet Azhar Iqbal
ازہر اقبال نے کہا کہ جو شعراء و فنکار حکومت کے خوف سے عوامی مسائل کو اپنی شاعری کے ذریعے سے پیش نہیں کرتے ہیں تو اگر انہیں شعراء کی فہرست میں نہ رکھا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور شاعری اشارہ و کنایات کا نام ہے اس لیے ہم تو اپنی شاعری کے ذریعے سے جو باتیں غلط ہوتی ہیں انہیں کہتے رہتے ہیں ہمیں کسی بات کا خوف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری شاعری و کلام پر کبھی کسی طرح کا سیاسی تبصرہ نہیں ہوا ہے مجھے ہر شخص نے اپنی داد و تحسین سے نوازا خواہ ہو انتہا پسند ہی کیوں نہ ہو مگر میری شاعری نے اس شخص کو متاثر کیا اور مجھے پیذیرائی حاصل ہوئی۔
شاعر ازہر اقبال نے کہا کہ سن 2000 کے آس پاس یہ کہا جاتا تھا کہ زبان و ادب اپنے آخری مراحل پر ہے کیونکہ نوجوانوں و نئی نسل کی دلچسپی اردو ادب کی طرف بڑھ نہیں رہی ہے مگر اب موجودہ حالت دیکھ کر کہا جائے کہ ادب اب دوبارہ زندہ ہو رہا ہے نوجوانوں میں بہت ایسے شاعر ہیں جو بہت بہتر شاعری کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سے جلا بخشی ہے ہم بہت پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان بھارت میں پیدا ہوئی اور پاکستان کی سرکاری زبان ہے اگر ہم کہہ رہے ہوتے ہیں اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو ہم ظلم کر رہے ہوتے ہیں اور حکومت کی پشت پناہی سے کچھ نہیں ہونے والا ہے کوئی زبان تبھی ترقی کر سکتی ہے کہ جب تک کہ اس زبان ترقی کے لیے اہل زبان کمر بستہ نہ ہوں تبتک ترقی ممکن نہیں ہے۔
ازہر اقبال نے نوجوان نسلوں کے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ زبان کوئی بھی ہو اسے سیکھنا چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی بتاتی ہے کہ علم حاصل کرو گر چین جانا ہو انہوں نے بھی علم کی تخصیص نہیں کی ہے یہ نہیں دیکھنا ہے کہ مشعل بردار کون ہے جہاں سے جو بھی ہے حاصل ہو اسے لے لینا چاہیے ہر زبان کو سیکھنا چاہیے تاکہ آپ کی آواز دور تلک پہونچے۔