اردو

urdu

ETV Bharat / state

Urdu Shayari Programme in BHU: 'اردوشعراء و ادباء کے نزدیک مدن موہن مالویہ جی کی شخصیت عالمِ باعمل کی ہے'

اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر وجے بہادر سنگھ Professor Vijay Kumar Singh نے کہاکہ یونیورسٹی محض عمارت سے نہیں بلکہ اپنے اور اپنے یہاں کے عالموں اور علم و ہنر کے میدان میں کیے گئے کارناموں سے جانا جاتا ہے۔ مدن موہن مالویہ جی نے علم و ہنر، فکر و فلسفہ اور اخلاقیات کا ایک خوبصورت خواب اس یونیورسٹی کی شکل میں دیکھا ہے، جس کی وسعت اور پھیلاؤ میں ہم سب کو ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے۔

اردوشعراء و ادباء کے نزدیک مدن موہن مالویہ جی کی شخصیت عالمِ باعمل کی ہے

By

Published : Dec 30, 2021, 7:10 PM IST

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے شعبۂ اردوبنارس ہندو یونیورسٹی کے زیراہتمام منعقدہ ’مالویہ لیکچرسیریز‘ کے تحت یادگاری خطبہ میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ' اردوشعراء و ادباء کے نزدیک مدن موہن مالویہ جی کی شخصیت عالمِ باعمل کی ہے۔


اس موقع پر اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ کی طرف سے قومی یکجہتی اوارڈ سے نوازے جانے پر پروفیسر وجے بہادر سنگھ، ڈین فیکلٹی آف آرٹس بنارس ہندو یونیورسٹی کے اعزاز میں ایک تہنیتی تقریب کا بھی انعقاد ہوا۔

بھارت رتن پنڈت مدن موہن مالویہ جی کی شخصیت سرسید، پریم چند اور سجاد ظہیر جیسی ہے، جو کسی کام کے متعلق فکرکے ساتھ عمل میں یقین رکھتے تھے۔ ایسی شخصیتیں اردو شعرا و ادبا کے نزدیک عالمِ باعمل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار آج پروفیسر علی احمد فاطمی سابق صدرِ شعبۂ اردو الہٰ آبادیونیورسٹی نے شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹیکے زیر اہتمام منعقدہ ”اردو شاعری اور پنڈت مدن موہن مالویہ“ عنوان کے تحت پرگرام میں اپنے خطبے کے دوران کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی شعرا کے اشعار بطور مثال پیش کیے۔

پنڈت برج نرائن چکبست کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ' چکبست نے مہامنا کو اپنی نظم میں فرشتہ صفت، مصلح قوم، محب وطن اور چراغِ علم و ہنر قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ایسے متعدد شعرا ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں پنڈت مدن موہن مالویہ جی کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے اخلاقی و سیکولر کرادر کو پیش کیا ہے۔

نذیرؔ بنارسی اپنی نظم میں قومی رہنما اور ماہرِ تعلیم مالویہ جی کے کرادر کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:


جو آدمی سوچ بھی نہ پایا وہ مالویہ جی نے کر دکھایا


نئے سرے سے سبھا سجائی، کلا کو دل کی کلی بنایا


بنایا وہ وِدیا کا مندر جو شان ہے پورے ایشیا کی


ہے سارا سنسار جس سے پری چت وہ پرتیبھا ہے مہامنا کی


مُکٹ ہے وارانسی کے سرکا، وہ ودیا کا حسین شیوالہ


تمام ودیارتھی جہاں کے ہیں، سندر سندر گلے کی مالا


عجب طرح سے امَر ہوا ہے نذیرؔ کا شی میں مرنے ولا


چراغ تو بجھ گیا ہے لیکن، ہے سارے سنسار میں اجالا


زبان کے حوالے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ہر مذہب کا اپنا زبان ضرور ہوتا ہے مگر زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اردو ایک شریں زبان ہونے کے ساتھ مشترکہ تہذیب اور اتحاد کی نمائندگی کرنے والی زبان ہے۔


پروگرام کی صدارت کر رہے پروفیسر وجے بہادر سنگھ ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے تہنیتی اجلاس کے دوران تہنیت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ میرے نزدیک ملکی و غیر ملکی علم و ادب، انسانی و اخلاقی تعلیم اور بھارت کی مشترکہ تہذیب نیز اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی کی نمائندگی کرنے والی زبانوں کی بی ایچ یو کی یہ فیکلٹی بہت اہم ہے۔ چوں کہ کسی بھی فیکلٹی کا نام اس کے تمام شعبوں کی کارکردگی سے ہوتا ہے اس لیے شعبہ کے کسی بھی مسائل کو حل کرنا نہ صرف فیکلٹی کے مسائل کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ بھارت کی مشترکہ وراثت کو سنوارنے کا عمل ہے۔ میں پنڈت مدن موہن مالویہ جی کی کوششوں کا ادنیٰ سا حصہ ہوں اور اتر پردیش اردو اکادمی کا یہ اعزاز میں فیکلٹی آف آرٹس کو نام کرتا ہوں۔


اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر وجے بہادر سنگھ نے کہاکہ یونیورسٹی محض عمارت سے نہیں بلکہ اپنے اور اپنے یہاں کے عالموں اور علم و ہنر کے میدان میں کیے گئے کارناموں سے جانا جاتا ہے۔ مدن موہن مالویہ جی نے علم و ہنر، فکر و فلسفہ اور اخلاقیات کا ایک خوبصورت خواب اس یونیورسٹی کی شکل میں دیکھا ہے، جس کی وسعت اور پھیلاؤ میں ہم سب کو ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے۔ اپنے خطبے کے درمیان انہوں نے شعبہ اردو کے تعلیمی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی تعریف کی نیز پریم چند کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کا بھی اعلان کیا۔


اس سے قبل پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صدر شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے مہمانوں کا استقبال کیا اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کو مبارک باد پیش کرتے ہوائے کہاکہ' انہوں نے شعبۂ اردو کے حوالے سے جوکام کیاہے اسے اردو آبادی کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ اس ایوارڈ سے نہ صرف ایک استاد کا، ایک شعبے کا، ایک فیکلٹی کا بلکہ اس پورے یونیورسٹی کانام روشن ہوا ہے۔ شعبہ کے قیام کے بعد اس کے توسیعی کام پہلی مرتبہ عمل میں آیا ہے یہ پروفیسر وجے بہادر سنگھ کی عملی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ یہ محض شعبہ کے جگہ کی توسع نہیں ہے بلکہ زبان کی توسیع ہے۔ شعبہ اردو کے نیو اسپیس کے عمل کی پذیرائی قومی و بین الاقوامی سطح پر ہوئی ہے اور اس ضمن میں کئی ادبا، شعراو اساتذہ کے خطوط محصول ہوئے۔


اس دوران مہمان مقرر پروفیسر شری پرکاش شکل، کوآرڈینیٹر بھوجپوری ادھین کیندربی ایچ یونے کہاکہ پروفیسر وجے بہادر سنگھ نے اردو اور ہندی زبان کی مشترکہ تہذیب شناخت اور ان کے آپسی رشتوں کو ایک نئی بلندی عطاکی ہے۔ کسی بھی عہدے کا قد عہدے پر فائز شخص کے ذریعہ کیے گئے کاموں سے نہیں بلکہ ان کے اخلاقی عمل سے بڑھتا ہے۔ پروفیسر وجے بہادر سنگھ میں یہ اخلاق اپنے والد اور آچاریہ ہزاری پرشاد دیویدی سے میں ملا ہے۔ کئی ڈین کے ساتھ کام کرچکے شری پرکاش شکل نے کہاکہ ڈین اور صدر شعبہ ہندی کے عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے جن اخلاقی رویوں کا مظاہرہ کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ یہ پہلے ڈین ہیں جن کے یہاں شعبہ کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی ایک بے چینی سی رہتی ہے۔ اردو کے پہلو بہ پہلو ہندی شعبہ کی عمارت کو بھی انہوں نے نئی خوبصورتی عطا کی ہے۔ انہیں قومی یکجہتی کا اوارڈ ملناہم سب کے لیے فخر کی بات ہے۔'


اس موقع پرپروفیسر آراین پاٹھک نے کہاکہ' پروفیسر وجے بہادرسنگھ بنیادی طورپر عملی زندگی میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں تصنع کے بجائے کچھ کرنے کا حوصلہ موجودہے۔ انہوں نے فیکلٹی اور اس کے ہر شعبے کو نئی خوبصورتی عطا کی ہے'۔


پروگرام کے پہلے اجلاس کے نظامت کا فریضہ ڈاکٹر مشرف علی اور دوسرے اجلاس کا ڈاکٹر احسان حسن نے انجام دیا۔ جب کہ اظہارِ تشکر کی رسم بہ حسن و خوبی ڈاکٹر رقیہ شاہین نے ادا کی۔

پروگرام میں مختلف شعبوں کے اساتذہ اور بڑی تعدادمیں طلبہ وطالبات اور رسرچ اسکالروں نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں:

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details