رامپور: اترپردیش کے ضلع رامپور میں 22 جولائی کو ہوئے طالب علم شہباز خان کی گرفتاری کے بعد سے اب تھانہ گنج پولیس سوالوں میں گھرتی جارہی ہے۔ شہباز کے اہل خانہ سمیت انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے شاہباز کو بے قصور قرار دیتے ہوئے پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھائے ہیں۔
رامپور کی رہائشی شبنم خان زوجہ شاہویز خان نے گذشتہ روز کپتان پولیس اشوک کمار شکلا کو ایک عرضداشت پیش کی جس میں بتایا گیا کہ 22 جولائی کو تھانہ گنج پولیس ہمارے محلے میں کسی ملزم کو پکڑنے آئی تھی جب پولیس ملزم کے گھر میں گھسی تو ملزم وہاں سے بھاگ کر ہمارے گھر میں گھس گیا اور اس کے پیچھے ایک پولیس اہلکار جس کا نام سنی تھا وہ بھی ہمارے گھر میں گھس گیا۔
یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے جب شور مچایا تو دوسرے کمرے میں سو رہے میرے شوہر شاہویز اور بیٹا شہباز علی جو بی کام سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے، وہ کمرے سے نکل کر باہر آئے۔ بیٹے نے ملزم سے کہا کہ تم میرے گھر میں کیوں گھسے ہو اور پولیس اہلکار سے آئی کارڈ دکھانے کو کہا، اتنے پر پولیس اہلکاروں نے میرے شوہر اور بیٹے سے بدتمیزی کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا اور الزام عائد کیا کہ ان دونوں کی وجہ سے مجرم فرار ہوا۔
شبنم خان نے درخواست میں پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر اور میرے بیٹے کو تھانہ گنج نے تھانہ لے جاکر بری طرح مارا پیٹا جس سے ان کے بیٹے کی پیر فریکچر ہوگئی۔ اس عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا کہ 22 جولائی کو ہی میرے بیٹے شہباز کو تھانہ گنج سے کوتوالی لے جایا گیا اور 23 جولائی کو شاہ آباد گیٹ سے 100 گرام اسمیک کے ساتھ فرضی معاملہ بناکر دکھایا گیا۔