سنہ 1915 میں ضلع علی گڑھ کے عثمان پاڑا علاقے میں پیدا ہونے والے حبیب پینٹر کا انتقال آج سے تقریباً 35 برس قبل آج ہی کے دن یعنی 22 فروری 1987 کو ہوا تھا۔
حبیب پینٹر کو گزرے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا لیکن آج بھی ان کی قوالیاں ویسی ہی مشہور ہیں۔ جن کی قوالیوں کو لوگ آج بھی سننا پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے قوالیوں کے علاوہ صوفیانہ کلام، روحانی کرشن، ستسنگ اور روحانی گیتوں کو موسیقی دی۔ ان کی شاعری سے متاثر ہو کر اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے حبیب پینٹر کو بلبلِ ہند کے خطاب سے نوازا۔ Death Anniversary of Bulbul-E-Hind Habib Painter
موسیقی کو سمجھنے والا اور قوالی سننے والا کوئی ایسا نہیں ہوگا جو حبیب پینٹر کے نام سے واقف نہ ہو۔ ان کی قوالی 'بہت مشکل ہے دگر پنگھت کی' آج بھی بڑی دلچسپی سے سنی جاتی ہے۔ تاہم آج ان کی یاد میں کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کی یاد میں عقیدت کے دو پھول چڑھائے جاتے ہیں۔
قوالی کا سلسلہ حبیب پینٹر نے حاجی ننھے میاں شاہ کے کہنے پر شروع کیا۔
حبیب پینٹر نے آزادی سے پہلے مہاتما گاندھی سے ملاقات کی۔ اس دوران ان کی قوالیوں میں قومی یکجہتی اور باہمی بھائی چارے کا رنگ نظر آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت اور چین (چائنا) جنگ کے دوران پورا ملک اتحاد کے دھاگے میں بندھا ہوا تھا۔ قوال حبیب پینٹر نے اس نازک دور میں لوگوں کو بیدار کرنے اور سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔
حبیب پینٹر کی یاد میں بنائے گئے پارک اور سڑک کا نام
حبیب اپنے ابتدائی دنوں میں گھروں کو پینٹ کرتے تھے اسی وجہ سے ان کا نام حبیب پینٹر پڑ گیا، لیکن چھوٹے میاں شاہ سے رابطے میں آنے کے بعد انہوں نے قوالیاں گانا شروع کر دیں۔ قوالیوں کے علاوہ وہ صوفیانہ کلام گانے میں بھی ماہر تھے۔
- آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے حبیب پینٹر کو ’بلبل الہند‘ کا خطاب دیا
ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو حبیب پینٹر سے خاص لگاؤ تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ان کی قوالی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے حبیب پینٹر کو بلبلِ ہند کے خطاب سے نوازا۔ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی، ڈاکٹر رادھا کرشنن، گیانی ذیل سنگھ، فخر الدین علی احمد، چودھری چرن سنگھ، مرارجی دیسائی اور بخشی غلام محمد ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
ایک پروگرام میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بخشی غلام محمد، صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی موجودگی میں جواہر لعل نہرو نے انہیں 'بلبل الہند' کے اعزاز سے نوازا۔ حبیب پینٹر نے قومی یکجہتی اور فلاح و بہبود کے لیے نمایاں کام کیے۔ چین سے جنگ کے دوران لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے انہوں نے وزیراعظم کے فنڈ میں رقومات دی۔
بالآخر 22 فروری 1987 کو وہ وطن سے محبت کرنے والا دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر رخصت ہوگیا۔
- پوتے نے قوالی کی وراثت سنبھالی
حبیب پینٹر کی آواز آج بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے گھروں میں گونجتی ہے۔ حبیب پینٹر کی قوالی کی ریکارڈنگ HMV کی کیسٹ میں بھی خوب گونجی۔ حبیب پینٹر کے چار بیٹے تھے انیس پینٹر، راجو پینٹر، گڈو پینٹر، شاہنواز پینٹر۔ انیس پینٹر نے اپنی وراثت سنبھالی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
حبیب پینٹر کے بعد ان کے بیٹے انیس پینٹر اور پوتے غلام حبیب اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے قوالی کے میدان میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ غلام حبیب نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا آج میرا خاندان اپنی اس وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ میں نے دادا کو نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا، ان کی قوالیاں سن کر قوالی سیکھی ہیں، آج میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر قوالی سنانے جاتا ہوں جہاں پر مجھے اپنے دادا کے عاشق ملتے جس سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرے دادا کتنے بڑے قوال تھے۔ ان کی آواز میں جادو تھا جس کے سبب ان کے عاشق دنیا میں آج بھی موجود ہیں جو ان کی آواز سننے کے آج بھی خواہش مند ہیں۔
- حبیب پینٹر کی یاد میں بنائے گئے پارک اور سڑک کا نام
ضلع علی گڑھ کے عثمان پاڑا میں سڑک کا نام حبیب پینٹر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سول لائن دودپور علاقے میں 'بلبلِ ہند' پارک بنایا گیا ہے۔ علی گڑھ شہر شاید حبیب پینٹر کو بھول گیا ہے، لیکن دودپور میں واقع 'بلبلِ ہند' پارک ان کی یادوں کو تازہ کردیتا ہے۔
غلام حبیب نے مزید بتایا کہ میرے والد بتاتے تھے کہ دادا حبیب پینٹر نے زندگی بہت سادگی سے گزاری، حبیب پینٹر جن کی رسائی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تک تھی لیکن وہ لوگوں سے چائے ہوٹل اور چوک پر ملتے تھے۔'