حیدرآباد (محمد شاداب عالم) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، جنہوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ MANUU Celebrates Urdu Journalism Conference
صحافت میں انگلش اور علاقائی زبان کی بالادستی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت اردو اور جموں و کشمیر کے ایڈیٹر خورشید وانی نے کہاکہ' انگلش ایک عالمی زبان ہے، اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ سینکڑوں برسوں سے انگلش صحافت نے جو ترقی کی ہے ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اردو صحافت کے زوال سے متعلق کہاکہ' جس طرح انگلشن صحافت نے پیشہ واریت کو اپنایا، اردو میں ایسی مؤثر کوششیں نہیں کی گئیں۔ اخبارات اور دیگر میڈیا اداروں کو پیشہ وارانہ خطوط پر استوار کرنے میں بخل سے کام لیا گیا جس سے اس شعبے کی شبیہ متاثر ہوئی۔ انہون نے کہا کہ اردو میں بیٹ رپورٹنگ نہیں ہوتی، یہاں صحت، کاروبار، ایجوکیشن، انٹرٹینمنٹ کے لیے کوئی خاص رپورٹر مختص نہیں ہوتا۔ ایک ہی رپورٹر کسی بھی شعبہ کی رپورٹنگ انجام دیتا ہے‘۔ تجزیاتی کالم لکھنے والوں کو معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اخبارات اور میڈیا اداروں کی آمدن اور مواد تیار کرنے کیلئے درکار انسانی اور مادی وسائل پر خرچ ہونیوالی رقومات میں توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب اردو صحافتی اداروں کی مالی حالت بہتر ہونے کے باوجود انکے ملازمین کو تسلی بخش مشاہرے نہیں ملتے۔
خورشید وانی نے نوّے کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ' جب نوّے کی دہائی میں بھارت کے لیے گلوبلائزیشن کا دروازہ کھلا تو اس دوران جس شعبے نے سب سے زیادہ بلندی حاصل کی وہ میڈیا انڈسٹری ہے۔ اس موقعے پر انگریزی اور مقامی زبانوں کے میڈیا اداروں نے خوب ترقی اسلئے کی کیونکہ وہ زمانے کی نئی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نوے کی دہائی کے بعد سے اردو صحافت میں زوال آنا شروع ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کے جملہ اداروں میں ادارہ سازی اور پیشہ واریت کا فقدان زوال کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہے۔ Urdu Journalism Needs Institutionalization and professionalism