اس مشہور محاورے کا تعلق 1857 کی جنگ آزادی سے رہا ہے جبکہ اس وقت ریاستِ حیدرآباد دکن میں نظام کی حکمرانی تھی جو برطانیہ حکومت کے اتحادی تھے لیکن حیدرآباد ریاست میں ایسے متعدد باغی موجود تھے جنہوں نے انگریزی سامراجیت کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا۔ Turum Khan who challenged the British - led the first independence struggle in Hyderabad
حیدرآباد کے بیگم بازار میں رہنے والا ایک عام سپاہی طور باز خان نے نہ صرف باغیوں کی قیادت کی بلکہ اس نے چھ ہزار حامیوں کو لیکر برٹش ریزیڈنسی پر حملہ کردیا تھا۔ جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچتے ہیں تو یہاں بھی انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں ماحول سازگار ہوتا گیا اور نظام پر بھی اس جنگ میں شامل ہونے کےلیے دباؤ میں اضافہ ہوتا رہا۔ نظام نے پہلے ہی انگریزوں کی حمایت کا اعلان کرچکے تھے تاہم ریاست کے متعدد افراد نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
1857 میں جب جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھے تو نظام کی فوج میں بھی انگریز کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا اور جب بغاوت کو کچلنے کےلیے کہا گیا تو جمعدار چھیدا خان نے انکار کر دیا کیونکہ جمعدار چھیدا خان، مغلوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دینا نہیں چاہتا تھا جسے بعد میں 15 ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی اطلاع جب طرے باز خان کو ملی تو اس نے باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے بیگم بازار میں جہاں جمعدار چھیدا خان کو قید رکھا گیا تھا اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ حملہ کردیا۔