آج وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے ایوان میں قرارداد پیش کرتے ہوئے سی اے اے کو آئین کے خلاف قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہندو۔مسلم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس قانون کی زد میں تمام مذاہب کے لوگ خاص کر غریب اور درج فہرست طبقات آئیں گے۔
کے سی آر نے کہا کہ سی اے اے پر بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کےلیے ایسا قانون بنایا گیا ہے۔
انہوں نے بی جے پی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سیکولر ملک ہے اور یہاں پر ’گولی مارو....‘ جیسے نعروں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ایسے نعروں پر افسوس کا اظہار کیا۔ کے سی آر نے دہلی فسادات پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مذہب کے نام پر باٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ اب تک ملک کی 7 ریاستوں نے اس متنازعہ قانون کے خلاف قراردادیں منظور کرتے ہوئے مرکز سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہیں۔
تلنگانہ اسمبلی میں سی اے اے،آر سی و این پی آر پر مباحث کا آغاز۔ چیف منسٹر کے چندراشیکھر راؤ نے ان قوانین پر بحث کا آغاز کیا انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی آبادی کو یہ فیصلہ منظور نہیں ہے جو اس کی عدم مساوات کے باعث اس کی شدید مخالفت کررہے ہیں لیکن مرکز اس کو نافذ کرنے پر بضد ہیں جس کے باعث ملک میں تناؤ کا ماحول ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ اس کی نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پراسکے خلاف احتجاج کیا گیا اور اس معاملے پر بین الاقوامی اسمبلی میں بھی مباحث ہوئے جس سے ملک کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے۔
کے سی آر نے اس قانون پر اعتراض کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اور ان کی پارٹی عوام کو تقسیم کرنے والے اس قانون کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہُ ان قوانین کا نفاذ ملک کی سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں ہیں اس ملک میں عوام سینکڑوں برس سے عوام مل جل کر گزر بسر کر رہے ہیں اس کی وجہ سے ملک کے عوام میں تفریق پیدا ہوئی ہے۔ کے سی آر نے اس تفریق کو ناقابل برداشت قرار دیا اور کہا کہ ان قوانین کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں جو ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے نفاذ کے اعلان کے بعد دہلی میں کئی افراد کی کانیں گئیں جس کیلئے خود مرکزی وزراء ذمہ دار ہیں جنہوں نے عوام کو " گولی مارو سالوں کو" کے نعروں کے ذریعے اعوان کو اکسایا یہ ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔