تلنگانہ کے ملوگو ضلع میں واقع رامپا مندر کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ تلنگانہ میں بہت سی تاریخی عمارتیں اور قلعے موجود ہیں، لیکن رامپا مندر کےلیےعالمی ثقافتی ورثہ مقام کا درجہ حاصل کرنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
رامپّا مندر، عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل اس انوکھے مقام کو حاصل کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں تھا۔ اس مندر کی خصوصیت کو پوری دنیا میں لانے کے لیے، ریاست اور مرکزی حکومت نے متعدد کوششیں کیں اور مختلف حکمت عملیاں اپنائی۔ رامپا مندر کو اپنے منفرد ڈھانچہ ، فن تعمیر اور خصوصی مواد سے تعمیر کرنے کےلیے عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
جغرافیائی خصوصیات جیسے متعدد تعمیرات اور مندر کے مرکزی ڈھانچے کے گرد عدم تجاوزات نے بھی اس حیثیت کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:'کشمیر کی نئی پود کو اپنی عظیم وراثت سے سبق لینا چاہئے'
اس سے قبل یونیسکو کے گولکنڈہ قلعہ، چارمینار، اور قطب شاہی مقبروں کو تسلیم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے بھارت کے آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا (ASI) کو بھی تجاویز بھیج دی گئیں۔ تاہم ، یہ اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
یونیسکو کے قواعد کے مطابق، عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ حاصل کرنے کے لیے اس عمارت کے 100 میٹر کے اندر کوئی اور ڈھانچہ نہیں ہونا چاہیے۔ ساخت کے ارد گرد 200 میٹر کے ریڈیس کو ایک محفوظ علاقہ سمجھا جانا چاہیے۔ نیز، ڈھانچہ انوکھا ہونا چاہئے ، جو دنیا کی کسی اور عمارت سے نہیں ملتا ہو۔
ان ضوابط اور دیگر امور کی تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ ڈھانچے کو ابھی تک عالمی ثقافتی ورثہ مقام کا درجہ نہیں ملا ہے۔ ابتدا میں یونیسکو کے قوانین کی تعمیل نہ کرنے پر ہزار ستون والا رامپا مندر اور ورنگل قلعہ کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم، رامپا مندر کو اب یونیسکو نے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا درجہ دے دیا ہے۔
رامپا مندر کو 13 ویں صدی میں آندھرا پردیش کے کاکتیہ خاندان کے مہاراجہ گنپتی دیو نے تعمیر کیا تھا۔ اس نے اپنے کاریگر رامپا سے کہا کہ وہ ایک ایسا مندر بنائے جو برسوں تک قائم رہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مندر کی تعمیر کا آغاز سال 1213 میں ہوا تھا اور تعمیراتی کام تقریبا 40 سالوں میں مکمل ہوا تھا۔
رامپا نے اپنی کاریگری سے ایسا مندر تیار کیا ، جو بہت خوبصورت تھا۔ جس سے بادشاہ خوش ہو گیا اور اس نے اسی کاریگر کے نام پر مندر کا نام رکھا۔ اسی خوبصورتی نے اسے آج یونیسکو کے ورثہ میں شامل کیا ہے۔