حیدرآباد: شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے اتوار کے روز اردو کے ممتاز دانشور اور صفِ اول کے نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر ایک آن لائن تعزیتی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس تعزیتی اجلاس میں شعبہ اردو کے طلبہ و اساتذہ کے علاوہ ملک کی مختلف جامعات کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔ Tribute to Gopi Chand Narang
صدر شعبہ اردو پروفیسر سید فضل اللہ نے کہا کہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس شعبہ میں دو برس بحیثیت گیسٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دیں اور وہ ہمیشہ شعبہ اردو کی سرپرستی فرماتے رہے۔ انہوں نے گوپی چند نارنگ کی علمی و ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے اردو دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنا مشکل ہے۔
پروفیسر حبیب نثار، شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر کا حیدرآباد اور یونیورسٹی آف حیدرآباد سے کافی گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک بڑے عالم و فاضل شخصیت تھے جنہوں نے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت پر بہت کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوپی چند نارنگ ایک بڑا نام ہے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ انہیں صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی انعام و اکرام سے نوازا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر زاہد الحق، اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردویونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف ہر کسی نے کیا ہے اور ہم سب اردو والوں کے لیے ان کا سانحہ ارتحال دکھ کی بات ہے۔
ڈاکٹر محمد کاشف، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ گوپی چند نارنگ کے انتقال پُرملال نے اردو دنیا کو سوگوار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر اپنے آپ میں ایک انجمن تھے ان کی شخصیت تحریک کی حیثیت رکھتی تھی۔ جدیدت اور مابعد جدیدت کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ لکھا اور جس طرح واضح کرنے کے بعد اس تحریک کو مستحکم کیا وہ کسی اور نے نہیں کیا۔
ڈاکٹر محمد کاشف نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی آنجہانی پروفیسر کو کسی کی مخالفت کرتے ہوئے یا کسی کے خلاف بولتے نہیں دیکھا۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے واقعی اس کا پُر ہونا آج کے زمانے میں مشکل ہے کیوں کہ آج ایسے لوگ اردو ادب میں کم ہوتے جارہے ہیں جن کواردو کے ساتھ انگریزی ادب پر بھی عبور حاصل ہو۔