محمود علی 30/اگست کو میڈیا پلس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک شام شوکت عثمانیہ کے نام تقریب سے مخاطب تھے جو میڈیا پلس آڈیٹوریم جامعہ نظامیہ کامپلکس گن فاؤنڈری حیدرآباد میں منعقد ہوئی۔
رحیم الدین انصاری نے اردو اکیڈیمی کے چیرمین کی حیثیت سے آخری تقریب کی صدارت کی۔ شہ نشین پر نظام کے پوتے نواب میر نجف علی خاں، ایڈیٹر گواہ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گل بوٹے ممبئی فاروق سید، سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی ڈاکٹر محمد غوث اور صدر تعمیر ملت جناب ضیاء الدین نیر موجود تھے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آصف جاہی حکمرانوں کے سیکولر کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نظام اول سے نظام ہفتم تک وزیر اعظم اور دوسرے اہم عہدوں پر 11غیر مسلم فائز تھے۔
ہندو اور مسلمان کو وہ اپنے دو آنکھ سمجھتے تھے۔ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے اور تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو امداد اور جاگیرات کا عطیہ دیا کرتے تھے جس کے فرامین موجود ہیں۔ نظام ایک دور اندیش بصیرت افروز دنیا کے امیر ترین حکمراں تھے‘ مگر فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی، آندھرا یونیورسٹی، شانتی نکیتین، فلسطین یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لندن، یونیورسٹی آف ہالینڈ کو انہوں نے امداد جاری کی تھی۔
محمود علی نے شوکت عثمانیہ کتاب کی اشاعت کے لئے تلنگانہ اردو اکیڈیمی کو مبارکباد دی۔ شوکت عثمانیہ تیس قلم کاروں کے مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین کامجموعہ ہے۔اس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران عہد عثمانیہ پر یہ سب سے منفرد اور جامع کتاب ہے۔