حیدرآبد میں انٹک تنظیم اور دکن آرکیف کا مشترکہ ہریٹج واک حیدرآباد: تلنگانہ کی راجدھانی حیدرآباد میں انٹک تنظیم اور دکن آر کیف کی جانب سے کا مشترکہ ہریٹج واک کا اہتمام کیا گیا۔ اس ہریٹج واک میں موسی ندی کو بھی شامل کیا گیا۔ اس دوران طلبہ کو 1908 میں طغیانی کے نشانات اور اس کی تاریخ سے واقف کروایا گیا۔ موسی ندی میں طغیانی کے 111 سال ہوگئے ہیں۔ 28 ستمبر 1908ء میں حیدرآباد میں آئے تباہ کن طوفان نے اپنی الگ تاریخ چھوڑدی تھی۔ موسی ندی کے کنارہ واقع شہر حیدرآباد کے کئی علاقے بہہ گئے تھے۔ یہ سیلاب جس کو مقامی طور پر طغیانی ستمبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں رہنے والے عوام کی زندگی کو تہس نہس کردیا تھا۔ اس سیلاب میں تقریباً 50,000 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
شہر کے دو حصوں کو جوڑنے والے تین اہم پل افضل گنج پل، مسلم جنگ پل اور چادر گھاٹ پل سیلاب کی زد میں آکر بہہ گئے تھے۔ صرف پرانا پل ہی شہر کے دو حصوں کو جوڑنے کا واحد ذریعہ بن گیا تھا۔ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ کولسا واڑی اور افضل میں گھانسی بازار ہیں۔ سیلاب سے تقریباً 80,000 مکانات تباہ ہوگئے تھے۔ ایک بڑی آبادی بے گھر ہوگئی تھی۔ نظام ہاسپٹل بھی تباہ ہوگیا تھا۔ دواخانہ میں شریک مریض زندہ دفن ہوگئے تھے۔
1860ء میں تعمیر کردہ افضل گنج پل، مسلم جنگ پل اور چادر گھاٹ پل صف ہستی سے مٹ گئے تھے۔ نظام حیدرآباد میر محبوب علی خان نے سیلاب کی تباہی اور طغیانی کے بعد کی صورتحال کا سڑکوں اور گلی کوچوں میں پہنچ کر جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے طوفان کی تباہی اور نقصانات کا بھی سروے کروایا۔
مزید پڑھیں: Lakes in Hyderabad حیدرآباد میں تالابوں کے تحفظ کے لئے مہم
طغیانی پر سروجنی نائیڈو نے اپنی نظم میں میر محبوب علی خان کی عوام کے سامنے اشکباری کا بھی ذکر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی نظم کا عنوان آصفجاہ کے آنسو رکھا تھا۔ نظام حیدرآباد نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور باز آبادکاری کیلئے اس وقت 4.5 لاکھ روپئے کا عطیہ دیا تھا (آج یہ رقم 5 بلین کے مطابق ہوتی ہے) سیلاب کی تباہی سے متاثرہ تقریباً 80,000 افراد کیلئے روزانہ تین ماہ تک کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
انٹک تنظیم، دکن آر کیف، کا مشترکہ ہریٹج واک رکھا گیا۔ جس میں 1908 میں طغیانی کے نشانات سے تاریخ کے طلباء کو واقف کروایا گیا۔ طغیانی کے پانی زمین سے 50 تا 60 فیٹ بلند تھا، پانی کی سطح اور اونچائی پر ایک تختی لگائی گئی جس پر 28 ستمبر 1908 لکھا گیا ہے۔