حیدرآباد: بے حساب زمین و جائیداد، ہیرے جواہرات کے مالک حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے پوتے نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کو آج حیدرآباد میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ان کا انتقال ہفتہ کو ترکی کے استنبول شہر میں ہوا جہاں وہ کئی سالوں سے مقیم تھے۔ مکرم جاہ کو سنہ 1954 میں ان کے دادا اور حیدرآباد کی شاہی ریاست کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ تب سے انہیں حیدرآباد کا آٹھواں اور آخری نظام کہا جاتا ہے۔ ان کے دادا ایک زمانے میں دنیا کے امیر ترین آدمی تھے۔ مکرم جاہ سے متعلق 'دی لاسٹ نظام'، 'دی رائز اینڈ فال آف انڈیاز گریٹیسٹ پرنسلی اسٹیٹ ' کے مصنف جان زوبریڈزکی نے مکرم جاہ کے بارے میں لکھا کہ، میں نے برسوں تک مسلم صوبے کے ایک حکمران کی کہانیاں پڑھی ہیں جس کے پاس کلو سے ہیرے تھے۔ ایکڑ میں موتی اور ٹنوں میں سونے کی سلاخیں تھیں لیکن پھر بھی وہ اتنا کنجوس تھا کہ کپڑے دھونے کے خرچ بچانے کے لیے کپڑے پہن کر نہاتا تھا۔ مکرم جاہ سنہ 1933 میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ شہزادی دُر شہوار ترکی (سلطنت عثمانیہ) کے آخری سلطان عبدالمجید دوم کی دختر تھیں۔ ایک سینئر صحافی اور حیدرآباد کی ثقافت اور ورثے کے ماہر میر ایوب علی خان نے کہا کہ پرنس مکرم جاہ کو رسمی طور پر سنہ 1971 تک حیدرآباد کا شہزادہ کہا جاتا تھا ۔
میر ایوب علی خان نے کہا کہ ساتویں نظام نے اپنے پہلے بیٹے پرنس اعظم جاہ بہادر کے بجائے اپنے پوتے کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ اس کے بعد سنہ 1967 میں حیدرآباد کے آخری سابق حکمراں کی وفات کے بعد مکرم جاہ آٹھویں نظام کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ شروعات میں ہی آسٹریلیا چلے گئے لیکن بعد میں ترکی میں آباد ہوگئے۔ زوبریڈزکی نے ترکی کے مکرم جاہ کے دو کمروں کے فلیٹ میں ان سے ہوئی اپنی ملاقات کے بارے میں لکھا، 'میں نے آسٹریلیا کے ریگستان میں ایک دربار کی ناقابل یقین کہانیاں سنی تھیں جہاں ایک بھارتی شہزادہ خوبصورت طریقے سے سجے ہاتھی پر بیٹھنے کے بجائے ڈیزل سے چلنے والی گاڑی چلانے کا انتخاب کیا تھا۔ میں نے ترکی میں رہنے والے ایک اجنبی کے بارے میں سنا تھا جو دو سوٹ کیس اور بہت سے ٹوٹے ہوئے خواب لے کر آیا تھا۔ مکرم جاہ کو وراثت میں ملنے والی دولت بے پناہ تھی، لیکن اپنے دور میں مکرم جاہ نے کبھی بھی کسی پر رحم نہیں کیا۔ صحافی ایوب علی خان نے کہا کہ حیدرآباد کے لوگ پرنس مکرم جاہ سے غریبوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی توقع رکھتے تھے کیونکہ انہیں اپنے دادا سے وراثت میں بے پناہ دولت ملی تھی جو ایک زمانے میں دنیا کے امیر ترین آدمی تھے۔انہوں نے کہا کہ تاہم، ایسا نہیں ہوا۔ مکرم جاہ نے پہلی شادی سنہ 1959 میں ترک شہزادی اسری سے کی۔ یاؤندی ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں، شہزادی اسری نے حیدرآباد میں اپنی شادی شدہ زندگی کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ کس طرح وراثت میں ملنے والی جائیدادوں اور خاندانی محلات کو محفوظ رکھنا ان کا شوق بن گیا۔