اجمیر خان 1985 سے ورزش اور پہلوانی کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ انہوں نے شہر بھر کے مختلف پہلوانوں کے ساتھ متعدد کُشتی کے میچوں میں حصہ لیا ہے لیکن انہیں کبھی بھی قومی سطح پر اپنی ریاست کی نمائندگی کرنے کا موقع نہیں ملا۔
خاص بات یہ ہے کہ اجمیر خان کی زیر نگرانی ٹریننگ کرنے والے کئی نوجوانوں نے پولیس محکمہ میں ملازمت اختیار کی ہے۔
اجمیر خان کہتے ہیں کہ ان کی بہتر فٹنس کی کلید انتہائی سخت روٹین اور غذا ہے۔ وہ محمدیہ تعلیم میں ٹریننگ دیتے ہیں جہاں وہ ایک کمرے میں کنبہ کے دیگر چھ افراد کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ 'نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ صحت مند طرز زندگی اپنائیں، روزانہ جاگنگ کریں اور فون کا کم استعمال کریں۔
اجمیر خان نے حکومت سے مالی مدد کی درخواست کی ہے کیونکہ نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کے عوض انہیں جو فیس ملتی ہے وہ بہت کم ہے اور اس کے علاوہ ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے والد اور بھائی نظام بٹالین کا حصہ تھے اور بعد میں عثمانیہ یونیورسٹی میں ملازمت کی۔ کوچنگ فیس کے علاوہ ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کیوں کہ والد کے ریٹائرمنٹ کے بعد نظام سے پانچ ایکڑ اراضی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اراضی نہیں دی گئی۔