حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ بھارت کا سب سے امیر مسلم اوقافی اداروں میں سے ایک ہے جس کی جائیداد کم از کم 5 لاکھ کروڑ روپے ہے، لیکن اس کی دولت محض کاغذوں پر ہے کیونکہ اس کی تقریباً 75 فیصد اراضی تجاوزات کی زد میں ہے۔ Waqf Property in Telangana
وقف بورڈ میں کئی دہائیوں کی بدعنوانی، بدانتظامی اور بے قاعدگیوں اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی بے حسی نے حیدرآباد اور ریاست کے دیگر حصوں میں وقف کی اہم جائیدادوں کی تباہی اور تجاوزات پر ادارہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔مسلم اوقاف کے ادارے کے پاس بہت سی جائیدادوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔جبکہ حیدرآباد اور اس کے اطراف میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران زبردست اقتصادی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں، وقف بورڈ نے یکے بعد دیگرے کئی اہم جائیدادیں کھو دیں۔ کچھ معاملات میں تو حکومت بھی وقف اراضی پر تجاوزات کرتی ہوئی پائی گئی۔ Encroachment on 75 Percent of Waqf Property
ریاست میں 33,929 وقف ادارے ہیں جن کی کل اراضی 77,538 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ تاہم، تین چوتھائی سے زائد اراضی (57,428 ایکڑ) تجاوزات کی زد میں ہے۔اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کی ملکیت میں موجود وسیع املاک کو دیکھتے ہوئے، یہ بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور مسلم کمیونٹی کی تعلیمی ضروریات کو آسانی سے پورا کر سکتا ہے۔ Encroachment on Waqf Property in Telangana
تاہم، صورتحال یہ ہے کہ بورڈ اپنے عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز کے لیے حکومت پر انحصار کرتا ہے۔بورڈ کا اصل میں 20,110 ایکڑ پر کنٹرول ہے، لیکن بمشکل 5 کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔وقف املاک کے بہت سے کرایہ دار یا تو بالکل بھی کرایہ ادا نہیں کرتے، یا وہ کرایہ ادا کرتے ہیں جو دہائیوں پہلے طے کیے گئے تھے۔
حیدرآباد کے ایک اہم تجارتی علاقے میں مدینہ بلڈنگ کا معاملہ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس عمارت میں 500 دکانیں ہیں، جو اصل میں سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ میں غریبوں کی مدد کے لیے بنائی گئی تھی۔ وقف بورڈ کو عمارت سے صرف چند لاکھ روپے کرایہ کے طور پر حاصل ہوتے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق موجودہ کرایہ کی قیمت پر اسے 6 کروڑ روپے سے زیادہ ملنے چاہیے۔ پرانے نرخوں پر بھی جمع شدہ واجبات تقریباً 30 کروڑ روپے بتائے جاتے ہیں۔
مختلف عدالتوں میں متعدد مقدمات زیر التوا ہونے کی وجہ سے، وقف بورڈ نہ تو نادہندگان کو بے دخل کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے کرایہ میں اضافہ کر سکتا ہے۔ وقف املاک کا تحفظ کئی دہائیوں سے مسلم کمیونٹی کا ایک بڑا مطالبہ رہا ہے۔ مسلم قائدین کا کہنا ہے کہ سابقہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد حکومتوں نے وقف املاک کے تحفظ کا یقین دلایا تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی سخت اقدامات کرکے اپنے اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا۔