حیدرآباد: نواب میر عثمان علی خان بہادر 6 اپریل 1886 کو حیدرآباد کے پرانے شہر میں واقع پرانی حویلی میں پیدا ہوئے اور 80 سال کی عمر میں 24 فروری 1967 کو کنگ کوٹھی میں ان کا انتقال ہوا۔ آج میر عثمان علی خان بہادر کی برسی کے موقع پر مسجد جودی، کنگ کوٹھی میں واقع مزار پر پوترا نواب نجف علی خاں ان کے خاندان کے دیگر ارکان کے علاوہ مختلف تنظیموں کی جانب سے چادر پیش کی گئی۔ نواب میر عثمان علی خان کی 56 ویں برسی کے موقعے پر دکن میں کی گئی ان کی گراں قدر خدمات کو یاد کیا گیا۔ کپٹن پنڈو رنگاریڈی نے نظام میر عثمان علی خان بہادر نے نظام حیدرآباد کا شمار نہایت ہی دوراندیش حکمرانوں میں ہوتا ہے جب کہ انہیں جدید حیدرآباد کے معمار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد کی بے مثال ترقی کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے جنہوں نے رعایا کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کیا تھا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر شعبہ حیات میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ نظام حیدرآباد کے نام سے مشہور تھے انہیں 25 سال کی عمر میں تخت نشین کیا گیا جبکہ انہوں نے 1948ء تک حیدرآباد ریاست پر حکمرانی کی۔
Nawab Mir Osman Ali Khan نواب میر عثمان علی خان بہادر کی 56 ویں برسی پر تقریب کا اہتمام
سابق ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی 56 ویں برسی کے موقعے پر مسجد جودی کنگ کوٹھی میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:Fall of Hyderabad State: سقوط حیدرآباد کا پس منظر
میر عثمان علی خان بہادر کی حکومت 17 ستمبر 1948ء کو ہند فوج کے آپریشن پولو تک قائم رہی اور پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کردیا گیا۔ موجودہ کرناٹک اور مہاراشٹر کے کئی علاقے حیدرآباد ریاست کا حصہ تھے۔ 1956ء میں لسانی بنیادوں پر ریاست حیدرآباد کو تقسیم کرکے آندھراپردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر کی تشکیل کی گئی۔ نظام میر عثمان علی خان بہادر نے اپنے دور حکمرانی میں جامعہ عثمانیہ، مشہور عثمانیہ ہسپتال، صدر شفا خانہ یونانی، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس، سٹی کلج، عالیہ اسکول، عثمان ساگر، حمایت ساگر ہائیکورٹ، اسمبلی ہال، باغ عامہ، آصفیہ لائبریری، نظام کالج، نظام شوگر فیکٹری حرمین شریفین میں کرنٹ، اور سونے کا پانی پرنال، اور وغیرہ کی تعمیر کروائی۔حیدرآباد دکن ایک ایسی ریاست تھی جس کا خود کا عوامی نظام ٹرانسپورٹ، محکمہ ڈاک، محکمہ ریلویز تھا۔ ان کے دورمیں علما، مشائخ، مساجد، مدارس اور ہر مذہب کی عبادت گاہوں کے لیے معقول امداد دی جاتی تھی۔ انہوں نے ملک کی سب سے عظیم جامعہ نظامیہ تعمیر کروایا- انہوں نے جامعہ نظامیہ اور دارالعلوم دیوبند کو بھاری عطیہ دیا تھا۔