جموں وکشمیر انتظامیہ نے حال ہی میں دربار مؤ کی 149 سالہ قدیم روایت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے اس حوالے سے چند روز قبل سرینگر اور جموں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو فراہم کردہ سرکاری رہائش 21 دنوں کے اندر خالی کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔
کیا واقعی دربار مؤ کی قدیم روایت ختم ہوگی؟ حکمنامے کے مطابق سرینگر کے ملازمین کو جموں میں فراہم کردہ رہائش کو خالی کرنا ہوگا جبکہ جموں کے ملازمین کو سرینگر میں اپنے رہائشی کوارٹر خالی کرنے ہوں گے۔
اس سے قبل بھی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ سول سیکرٹریٹ جموں اور سرینگر میں ایک ساتھ کام کرے گا۔ کشمیر کے ملازمین سرینگر اور جموں خطے کے ملازمین جموں کے سول سیکرٹریٹ میں ہی کام کریں گے جبکہ ایڈمنسٹریٹیو سیکرٹریز شڈول کے مطابق جموں اور سرینگر کا باری باری دورہ کرتے رہیں گے۔
انتظامیہ کا کہنا کے کہ پورے ریکارڈ کو ڈجیٹلائز کیا گیا اور ای سسٹم متعارف کیے جانے سے اب کہیں سے بھی کام کرنے کی رسائی ممکن بن گئی ہے۔
اب سال بھر سیکرٹریٹ میں جموں اور سرینگر میں فائلوں کی منتقلی کے بغیر ہی بیک وقت کام کاج انجام دیا جا سکتا ہے اس عمل سے نہ صرف لوگوں کو کافی آسانی ہوگی بلکہ دربار مؤ کی منتقلی پر خرچ ہونے والے دو سو کروڑ روپے کی بھی بچت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر میں دربار مو کی 149سالہ قدیم روایت کا خاتمہ
جموں و کشمیر میں سالانہ دربار مؤ کی منتقلی کو منسوخ کرنے سے متعلق لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کے مجوزہ فیصلے پر بی جے پی نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس صدیوں پرانی روایت کو بدلنے کی ضرورت تھی کیونکہ سال میں دربار مؤ کی منتقلی عوام کے فنڈس کی بربادی تھی۔
ادھر جموں و کشمیر کی بعض سیاسی جماعتیں ایل جی انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت کررہی ہیں۔ اپنی پارٹی کے صدر سید الطاف بخاری کہتے ہیں کہ دربار مؤ سے نہ صرف دنوں خطوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم ہوتا ہے بلکہ اس سے عام تجارت پیشہ افراد کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:'دربار مو' کے خاتمے سے تجارت پیشہ افراد مایوس
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس فیصلے کو عوام مخالف قرار دے رہی ہے۔ پی ڈی پی کے سینئر رہنما رؤف بٹ کا کہنا کے ایل جی انتظامیہ کو اس بارے میں وضاحت کرنی چاہئے کہ آخر یہ فیصلہ لینے کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیونکہ اس سے جموں و کشمیر کے عوام میں کئی خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ دوبار مؤ کی منتقلی کو ختم کئے جانے سے کروڑوں روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال میں لایا جائے گا۔ لیکن اب بیشتر سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا انتظامیہ اپنے فیصلہ پر کاربند رہتی ہے یا فیصلے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔