اسماء شکیل مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جارہی ہیں۔ ان کا ایڈمیشن امریکہ کے شہر واشنگٹن میں واقع جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں بھی ہو گیا ہے۔
کشمیر سے سی بی ایس ای ٹاپر ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران اسماء شکیل نے بتایا 'وادی میں انٹرنیٹ خدمات میسر نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلہ فارم بھرنے کے لیے مجھے دہلی جانا پڑا'۔
اسماء نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین اور اساتذہ کے سر باندھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 'میرے والدین، اسکول اور خاص طور پر میرے اساتذہ نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، جس مقام پر پہنچی ہوں سب انہیں کی بدولت ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی میں مواصلاتی نظام بند تھا، جس وجہ سے نا وہ اسکول جا پا رہی تھی نا ہی ملک سے باہر یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے درخواست جمع کر پا رہی تھی۔ ان سب چیزوں کے لیے انہیں دہلی جانا پڑا، جہاں انہوں نے داخلے کے لیے امتحانات میں حصہ لیا۔
اسماء کا کہنا ہے کہ " میں رواں سال 30 جنوری کو واپس سرینگر آئی اور میرے امتحانات 28 فروری سے تھے۔ میں نے بالکل بھی تیاری نہیں کی تھی کیونکہ دہلی میں مجھے یونیورسٹی کے داخلوں کی وجہ سے پڑھائی کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ یہاں آکر میں نے اپنی بہن بسمہ اور بھائی کے ساتھ مل کر پڑھائی کی اور 27 دن میں امتحانات کے لیے تیار ہوگئی۔ مجھے میڈیکل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور میرے والدین نے بھی میرا ساتھ دیا۔ اگرچہ وہ مجھ پر میڈیکل لینے کا دباؤ ڈالتے تو شاید آج میں نا کامیاب ہوئی ہوتی۔"
اسماء کا داخلہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے علاوہ انگلستان کی ناٹنگھم سٹی میں بھی ہوا ہے۔ وہ رواں سال اگست کے مہینے میں امریکہ کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔ جہاں وہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں تعلیم حاصل کریں گی۔ اسماء کا کہنا ہے کہ میں اپنے ویزا کا انتظار کر رہی ہوں اور امید ہے کی اگست کے مہینے میں اگر وادی کے حالات ٹھیک رہتے ہیں تو میں امریکہ کے لیے روانہ ہو جاؤں گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'امریکہ کی یونیورسٹی کسی بھی دباؤ کے تحت کام نہیں کرتی۔ میں کوشش کروں گی کشمیر کے حقائق سے سب کو واقف کراؤں۔ ہماری کہانیاں سب سننے چاہیے اور سمجھنے بھی چاہیے۔ کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں بھی بات کرنے سے میں نہیں پیچھے ہٹوں گی'۔