کشمیر میں خواجہ سرا طبقہ حکومتی سطح پر نظر انداز کیوں؟ سرینگر:خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق مفاد عامہ کی عرضی کے جواب میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر اور لداخ کو مختلف ہدایات کی تعمیل سے متعلق ایک اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ ہدایت میں عدالت نے دونوں خطوں کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ تازہ ہدایات کی تعمیل کے بارے میں رپورٹ فراہم کریں تاکہ عدالت مناسب احکامات جاری کرسکے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں خواجہ سراؤں کی حالت بے حد ابتر ہے معاشرے میں اب بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ انہیں زندگی کے ہر موڑ پر ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ ملازمت ہو یا قانونی شناخت، معیاری زندگی ہو یا تعلیم سمیت دیگر سماجی معمالات۔ وہیں ان میں اکثر اپنے ہی والدین، رشتہ داروں اور دیگر افراد کے ہاتھوں جسمانی اور زبانی بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سنزل کے چئیرمین اعجاز احمد بند نے کہا کہ کورٹ کے اس تازہ حکم نامے کی رو سے ابھی تک حکومتی سطح پر کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا گیا جو کہ بدقسمتی کی بات ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں وکشمیر میں میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 بتائی جارہی ہے لیکن آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اگرچہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک اہم فیصلے کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور پر درجہ دیا مگر جموں وکشمیر میں اس فیصلے کی رو سے انہیں ابھی تک وہ شناخت بھی نہیں مل پائی ہے۔ خواجہ سراء ہمارے معاشرے کا ایسا پِسا ہوا اور کمزور طبقہ ہے جو کہ کمزوریوں، پریشانیوں اور دکھوں کے سائے میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ جنم سے لے کر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لیے مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
درخواست گزار نے اپنی عرضی میں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ کئے جارہے امتیازی سلوک کا بھی ذکر کیا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کے رنگ برنگے لباس، چمکتے چہرے اور ان کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے نہ جانے کتنی دکھ بھری کہانیاں ہیں جنہیں سننے کی سکت شاید ہم میں نہ ہو۔ یہ تو وہ محروم طبقہ ہے جسے اپنے حتی کی ان کے والدین بھی اپنانے سے ڈرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے درجے کے تحت حقوق اور تحفظات کی پاسداری عمل میں لائی جائے۔ وہیں ان کے لیے جامع معاشی منصوبہ بندی اور اب کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر سے بہتر قوانین متعارف کرائے جائیں تاکہ یہ طبقہ بھی اپنی زندگی بہتر ڈھنگ سےگزار سکے۔