اردو

urdu

ETV Bharat / state

کشمیریوں کو واپس لوٹنے کے لیے قرض کیوں لینا پڑا؟ - کورونا وائرس

کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے نافذ لاک ڈاون کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں میں پھنسے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری طلبا، تاجروں، مزدوروں اور دیگر افراد کو ان کے گھر واپس لایا گیا ہے۔

پھنسے کشمیریوں کو واپس لوٹنے کے لیے ادھار کیوں لینے پڑا
پھنسے کشمیریوں کو واپس لوٹنے کے لیے ادھار کیوں لینے پڑا

By

Published : May 25, 2020, 5:35 PM IST

جبکہ یوٹی انتظامیہ کی جانب سے ان درماندہ لوگوں کو سرکار اپنے خرچے پر بسوں اور خصوصی ریل گاڑیوں کے ذریعے کشمیر وادی واپس پہنچا رہی ہے۔

لیکن ملک کے دیگر حصوں اور ریاستوں میں پھنسے متعدد مزدوروں کو وادی واپس لوٹنے کے لیے ادھار پیسوں کا بندوبست کر کے اپنے خرچہ پر ہی بسوں کا انتظام کرنا پڑا ہے۔
پھنسے کشمیریوں کو واپس لوٹنے کے لیے ادھار کیوں لینے پڑا

جس کے پیش نظر جموں و کشمیر یو ٹی انتظامیہ کی جانب سے سرکاری خرچ پر پھنسے ہوئے طلبا، تاجروں اور مزدوروں کو واپس لانے کے دعوؤں پر کئی سوالات کھڑے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔

جی ہاں گزشتہ ہفتے ان 72 مزدوروں کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جو حیدرآباد شہر سے 430 کلومیٹر دور پٹاپرتی علاقے میں پھنسے تھے۔

گزشتہ دو ماہ کے لاک ڈاون کے دوران پیسے ختم ہونے کے باوجود انہیں حیدرآباد پہنچنے کے لیے از خود تین بسوں کا بندوبست کرنے کی غرض سے وہاں کے ایک مقامی تاجر سے ایک لاکھ 82 ہزار روپیوں کا ادھار لینا پڑا تاکہ وہ پٹاپرتی سے حیدر آباد شہر پہنچ کر ریل گاڑی میں وقت پر سوار ہو کر کشمیر وادی کی طرف روانہ ہوسکے۔

ان 72 افراد میں کئی کنبے بھی موجود تھے۔ گھر جانے کے لیے ایک لاکھ 82ہزار کا بندوبست کرنے لے لئے انہیں پردیس میں آدھار لینے کے لیے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اپنے پیسوں سے بسوں کا انتظام کر کے حیدر آباد اسٹیشن پہنچنے پر انہیں پھر اس وقت مزید ذہنی کوفت اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑا جب سماجی فاصلے کا بنا کسی پاس و لحاظ کر کے تمام 72 افراد کو ٹرین کے ایک ہی ڈبہ میں ادھمپور سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ان مسافروں میں سے نہ صرف مرد یا نوجوانوں تھے بلکہ ان میں سے کئی بزرگوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بعد میں ان درماندہ افراد کو ادھمپور سے سرینگر تک کے سفر کے دوران بھی کئی کئی مشکلات و مسائل درپیش آئے۔

ادھمپور سے بسوں میں سرینگر کی اور سفر کرنے کے دوران اچانک جموں قومی شاہراہ پر پنتھیال کے مقام پر چٹانیں کھسکنے سے راستہ بند ہونے کی وجہ سے انہیں انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

بغیر چند درجن بسکٹ پیکٹ اور پانی کی چند بوتلوں کے سوائے انہیں انتظامیہ کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا ہے۔ ایک تاجر شیخ طارق احمد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ضلع ادھمپور کے سول اور پولیس انتظامیہ سے کھانا فراہم کرنے کے حوالے سے کئی بار گزارش بھی کی گئی۔

لیکن وہ تین دن تک ابھی اور صبح شام کرتے رہے لیکن کھانے کے لیے کچھ بھی فراہم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں گاڑیوں میں بیٹھ کر بے یارو مدد گار تین دن گزارنے پڑے ہیں۔

اگرچہ سرینگر پہنچتے ہی ان افراد کو انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ مختلف قرنطیہ مراکز میں منتقل کیا گیا ہے لیکن اس طرح کے واقعات سے انتظامیہ کی جانب سے ملک کی باقی ریاستوں سے واپس لائے جانے والے افراد کو کھانے پینے اور کرایہ وغیرہ کی سہولیات دستیاب رکھنے کے بلندو باگ دعوے سراب ہی ثابت ہورہے ہیں وہیں۔ کئی سوالات کے جنم دینے کے موجب بھی بن رہے ہیں۔

واضح رہے ان 72 افراد میں سے چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ قالین باف نذیر احمد بھی شامل تھے۔ جس کی موت گاڑی سے اتر کر پیرپھسلنے کی وجہ سے گہری کھائی میں گرنے سے موت ہوئی تھی ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details