ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’’گزشتہ مہینے تک ٹی آر ایف کا وادی میں کوئی وجود نہیں تھا تاہم اب مرکزی زیر انتظام علاقے کی حفاظت اور وادی میں تشدد کو بڑھانے کی حکمت عملی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’رواں مہینے کی چھ تاریخ کو شمالی کشمیر کہ کپوارہ ضلع میں پاکستان سے آئے پانچ ٹی آر ایف سے منسلک عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تھا جن میں سے تین مقامی باشندگان تھے۔‘‘
کپوارہ کے کیرن سیکٹر میں چھ دن تک جاری جھڑپ کے دوران پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کے پانچ جوان بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ٹی آر ایف کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے جموں وکشمیر انتظامیہ بھی خطے میں تیز رفتار انٹرنیٹ خدمات بحال نہ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ انتظامیہ نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کے تعلق سے جاری کیے گئے بیان میں ٹی آر ایف کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ ’’حالیہ دنوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں، حفاظتی عملے پر حملے، بھاری تعداد میں اسلحہ بر آمد کیا جانا اور اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر عسکری ویڈیوز اور فوٹوز اپلوڈ کرنے کی وجہ سے انتظامیہ وادی میں 4جی خدمات بحال نہیں کر سکتی۔‘‘
بیان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کی ایک نئی عسکریت پسند تنظیم کا منظر عام پر آنا بھی ایک وجہ ہے کہ تیز رفتار انٹرنیٹ بحال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں ایک طرف انتظامیہ یہ امید کر رہی ہے کہ 2 جی انٹرنیٹ کی وجہ سے وادی میں تصادم آرائیوں میں کمی آئے گی اور ٹی آر ایف اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو پائے گی وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ’’باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹی آر ایف کا سربراہ جس کا نام ابو انس بتایا جا رہا ہے وہ جنوبی کشمیر کا رہنے والا ہے۔‘‘
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہنس کے بارے میں تمام تفصیلات جمع کر رہے ہیں اور اس نئی عسکریت پسند تنظیم میں کل کتنے نوجوان شامل ہو چکے ہیں اس بارے میں بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘