پندرہ برس قبل آٹھ اکتوبر 2005 کے روز 7.6 کی شدت کے زلزلے نے کشمیر اور اس سے متصل ممالک کے متعدد علاقوں کو زبردست نقصان پہنچا تھا، جس کے نتیجے میں اسی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ غیرسرکاری جماعتوں کے اعداد و شمار کے مطابق چالیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔
جموں وکشمیر: 2005 زلزلے کی برسی پر ویبنار ويبنار میں کشمیر کے صوبائی کمشنر پی کے پول، این سی پی ڈی پی احمدآباد سے ڈاکٹر راجندرا ڈیسائی، آئی آئی ٹی مدراس سے پروفیسر سی وی آر مورتی، این جی آر آئی حیدرآباد سے ڈاکٹر وینیت گہلوت، آغا خان فاؤنڈیشن سے ٹنّی سہانی، این ڈی ایم اے سے کمل پشاور اور دیگر ماہرین نے شرکت کی۔
ویبنار کے دوران ماہرین نے زلزلے کی آمد سے لے کر متاثرین کی بازآبادکاری اور انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے جارہے اقدامات کے علاوہ جموں و کشمیر میں تعمیری کام کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ۔
اگر دوبارہ سے وادی میں ایسا زلزلہ آتا ہے تو انتظامیہ کتنی تیار ہے؟ اس سوال کے جواب میں کشمیر کے صوبہ کمشنر پی کے پولے کا کہنا تھا کہ "2005 کے زلزلے کے وقت نہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ تھی اور نہ ہی اسٹیٹ یا ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ تھا بلکہ ان کو تشکیل دیا جارہا تھا، آج اگر ویسا زلزلہ آتا ہے تو اس صورتحال میں ہماری کاروائی کرنے کا طریقہ بھی بہتر ہوگا اور ہمیں وقت بھی کم لگے گا کیونکہ اب عوام میں زلزلے کے حوالے سے کافی بیداری پیدا ہوچکی ہے اور یہاں کی تعمیرات بھی اب زلزلے کی شدت کو برداشت کرنے کے اعتبار سے کی جا رہی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں تو کہیں نہ کہیں سے شروعات کرنی ہیں، پہلا قدم اٹھاتے ہوئے کشمیر صوبے میں زلزلے کی شدت برداشت کرنے والے تعمیرات والا ایک ضلع بنے گا، جو ضلع پورے ملک کے لیے ماڈل ہوگا، ضلع کی نشاندہی جلد کی جائے گی اور انتظامیہ کی جانب سے اس ضلع کو ماڈل بنانے کے لیے پوری حمایت ہوگی۔"
پروفیسر مورتی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ "اگرچہ کشمیر زون 5 میں آتا ہے اور جموں زون چار میں لیکن ان زونز کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ حال ہی میں کاٹھمانڈو میں آئے زلزلے سے یہ محسوس کیا گیا ہے کی ان علاقوں میں زلزلے کی شدت کچھ حصوں میں تبدیل ہوئی ہے۔