جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں 13 جولائی کو یوم شہداء کی مناسبت سے جہاں گزشتہ دو برسوں سے حکومت کی جانب سے کوئی بھی تقریب منعقد نہیں کی گئی وہی اس دن کی سرکاری چھٹیاں بھی رد کر دی گئی ہیں۔
بتا دیں کہ سری نگر کے نقشبند صاحب علاقے میں واقع مزار شہداء پر منگل کے روز 'یوم شہدا' کے موقع پر جہاں اس سال بھی خاموشی چھائی رہی اور اس تاریخی مزار کی طرف جانے والے راستے مسدود رہے وہیں سرکاری سطح پر مسلسل دوسرے برس سے کوئی تعطیل نہیں تھی اور نہ ہی کسی قسم کی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
واضح رہے کہ 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر میں سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں 22 کشمیریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بعد میں سال 1948 میں اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ نے اس دن کو 'یوم شہدا' قرار دیا تھا اور اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا۔
تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا بلکہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش 5 دسمبر کی تعطیل کو بھی فہرست سے نکال دیا جبکہ 27 اکتوبر کو سرکاری تعطیل رکھی گئی جس دن مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔
اس دوران نیشنل کانفرنس کی جانب سے پارٹی ہیڈ کوارٹر نوائے صبح جبکہ پی ڈی پی کی جانب سے پارٹی ہیڈ کوارٹر پولو ویو سرینگر میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا جس دوران دونوں پارٹیوں کے لیڈران نے 13 جولائی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارٹی ہیڈ کوارٹر پر 13 جولائی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد مختصر سی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 13جولائی کا دن جموں و کشمیر میں پُرتپاک اور پُرجوش انداز میں منایا جاتا تھا اور مرازِ شہداء پر سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ دو برسوں سے بندشیں اور ناکہ بندی کرکے کشمیریوں کو ان عظیم سپوتوں اور محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے سے جبراً روکا جارہا ہے۔