اردو

urdu

ETV Bharat / state

'ہم بی جے پی کے خلاف نہیں ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں'

نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے ڈی ڈی ی انتخابات سے لیکر دفعہ 370 کی منسوخی تک، سبھی معاملات پر بات کی۔ انہوں نے کہا جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگ دفعہ 370 کی منسوخی سے بالکل خوش نہیں ہے۔

' ہم بی جے پی کے خلاف نہیں ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں'
' ہم بی جے پی کے خلاف نہیں ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں'

By

Published : Nov 16, 2020, 10:50 PM IST

رواں مہینے کی 28 تاریخ سے جموں و کشمیر میں پہلی مرتبہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات کے ذریعے جموں کشمیر کی زمینی سطح پر اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے وہیں وادی کی دیگر سیاسی جماعتیں پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن (پی اے جی ڈی) تحت انتخابات میں حصہ لے کر عوام کی آواز بننا چاہتی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت کے دوران نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر نے انتخابات میں حصہ لینے سے لے کر الائنس کے منصوبات پر تفصیلی بات کی۔

'ہم بی جے پی کے خلاف نہیں ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں'
انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا گیا؟'اس وقت منظر عام پر غلط باتیں لائی جارہی ہیں کہ دفعہ 370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد عوام خوش ہے، حالات ٹھیک ہو گئے ہیں۔ جو بالکل سچ نہیں ہے۔ مرکزی سرکار کی جانب سے گزشتہ برس لیے گئے فیصلے کے بعد جموں و کشمیر ہر طریقے سے بچھڑ رہا ہے۔ سیاسی طور پر، سماجی طور پر یا پھر معاشی طور پر حالات کافی خراب ہو چکے ہیں۔''اگر وہ ( مرکزی سرکار) صحیح ہوتی تو اسمبلی انتخابات منعقد کرواتی۔ ڈاکٹر فاروق صاحب نے ایک مقصد کے تحت وادی کی تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی اور پھر پی اے جی ڈی کا قیام عمل میں لایا۔ مقصد بس یہی ہے کہ گزشتہ برس چار اگست کو جو صورتحال تھی وہ بحال ہونی چاہیے۔ ہم نہ ہی عسکریت پسند تھے اور نہ ہی دہشت گرد، جو ہمیں جیل میں ڈالا گیا۔ ہم بھارت کے آئین کی بات کرتے ہیں۔ الحاق کے وقت جو ہم سے وعدے کیے گئے تھے، یقین دہانی کرائی گئی تھی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے جس قرارداد کو منظور کیا تھا۔ ہم اس کی بات کرتے ہیں۔ وہ باتیں رفتہ رفتہ غائب ہوتی جا رہی ہیں۔' 'ہمیں انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ لیکن مرکزی سرکار جو دعوے کرتی ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہے، انہیں غلط ثابت کرنے کے لئے ہم انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پنچایتی انتخابات کی بات کریں تو تقریباً 13500 پنچوں کا انتخاب نہیں ہوا ہے۔ اور جو 3000 کا انتخاب ہوا ہے وہاں 25 سو ایسے ہیں جو بلامقابلہ ہی کامیاب قرار دیئے گئے۔ لوگ خوش نہیں، ناراض ہیں۔'کیا عوام آپ کے حق میں ووٹ ڈالی گی؟'سرداری عوام کا حق ہے۔ عوام ہی سرکار بناتی ہے گراتی ہے۔ ہم نے ایک نظریہ پیش کیا، ابھی عوام پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے نظریے کو کس حد تک حمایت فراہم کرتے ہیں اور دیگر جماعتوں کے نظریے کو کیسے تصور کرتے ہیں۔ یہ عوام کا کام ہے۔''ہم نے گپکار ڈکلیریشن میں اپنا منصوبہ واضح کردیا ہے کہ ہمیں گزشتہ برس چار اگست والی ائینی حیثیت واپس لانے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل بھی ان دفعات میں ترمیم کر کے انہیں کمزور کر دیا گیا تھا۔ لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ فی الحال چار اگست والی پوزیشن بحال ہو جو آئین ہند کا حصہ ہے۔ ہم کوئی آزادی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے آئین کے تحت جو ہمارے حقوق تھے انہیں بحال کیا جائے۔ سیدھی بات ہے ہم کسی اور ملک کے آئین کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم بھارت کے قدآور رہنماؤں کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کی بات کرتے ہیں۔''اگر کشمیر مسئلہ نہیں ہے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان اتنی جنگیں کیوں ہوئی؟ اتنے معاہدے کیوں دستخط کیے گئے؟ ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے اور اس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ صرف ہماری بات مانی جائے لیکن بات چیت ہونی چاہئے۔ آپ پارلیمنٹ میں جائیں گے اور اعلان کریں گے کہ ہم نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا، جمہوریت میں ایسا نہیں چلے گا۔'آنے والے انتخابات میں سیٹو کو لے کر جماعتوں میں اتفاق نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟'ڈاکٹر فاروق صاحب نے واضح طور پر سب سے کہہ دیا یہ کام اب خود کرو۔ میں سیٹوں کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا ہوں۔ میں انتخابات میں کامیاب ہونے کے لئے نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس لئے کر رہا ہوں کہ یہ واضح ہو جائے کہ کشمیری عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ مرکزی سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ جموں ان کے فیصلے کے ساتھ ہے۔ لداخ ان کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ سب دعوے بے بنیاد ہے۔ لداخ والے سر پیٹ رہے ہیں، جموں والے رو رہے ہیں۔ وہاں باہر سے لوگ آنے شروع ہوگئے ہیں۔ جموں اور لداخ والے ہم سے زیادہ ناراض ہیں۔ آج ان کو اپنے بچوں کا مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔ زمینی قوانین میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس کا زیادہ اثر جموں میں پڑنے والا ہے۔''حکومت کو دیکھنا چاہیے تھا کہ لوگوں کے دل کیسے جیتے جائے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کی تھی۔ ہم انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ گلے لگائیں گے اور اس مسئلے کا کوئی حل نکالے گے۔ لیکن 5 اگست کو لیا گیا فیصلہ بی جے پی کی جانب سے پارلیمنٹ میں اکثریت کا غلط فائدہ اٹھانے کے برابر ہے۔' اس بار پہلی بار والمیکی سماج سے وابستہ افراد انتخابات میں حصہ لیں گے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟'والمیکی سماج ہو یا ویسٹ پاکستانی، ہم ان کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ بی جے پی ایک بڑی پارٹی ہے اور ہم ان کے بھی دشمن نہیں ہیں۔ ہم بس ان کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تجربے کیے جاتے ہیں اور ملک کے دیگر حصوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔' 'والمیکی سماج اور دیگر طبقے غریب ہیں۔ ان کے حوالے سے بات ہونی چاہیے۔ عمر صاحب نے اس پر اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ ان کے لیے راستہ تلاش کیا جا رہا تھا۔ کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ لیکن ہم وہ قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے جموں کشمیر کی خود مختاری پر آنچ آئے۔ ہم کسی کے ساتھ ظلم کیسے ہونے دے سکتے ہیں جب ہم پر خود ظلم ہوا ہے۔' 'اگر ان (حکومت) کو یہاں کی زمین ضرورت ہے وہ تو یہ لے رہے ہیں لیکن اگر ان کو یہاں کے لوگوں کی ضرورت ہے تو یہاں کے لوگوں سے بات کرنی چاہئے۔ اگر یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں مکمل طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کرنا ہے تو کون روک سکتا ہے؟ لیکن پہلے لوگوں سے بات تو کریں۔''اگر یہاں کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو یہاں پر جو قتل و غارت ہوتی ہے وہ بھی ختم ہو جاتی۔ ہمیں اقتدار کا شوق نہیں لیکن لوگوں کی امنگوں کا احترام کرنا چاہئے۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details