وادی کشمیر میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان زندگی کی انمول نعمت کو چھوڑ کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ جہاں خودکشی کی خبر سنتے ہی ہر ایک انسان غم میں ڈوب جاتا ہے وہیں اس انتہائی اقدام کے وجوہات کا پتہ لگانے میں غیر معمولی دلچسپی بھی لیتا ہے۔
وادی میں چند دنوں سے خودکشی کے واقعات رونما ہونے کی خبریں آئے روز سننے کو مل رہی ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں نوجوان لڑکی یا لڑکے نے گلے میں پھندا ڈال کر یا زہری شے کھا کر اپنی زندگی کا خاتمے کیا یا دریا میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر دیا۔ ان واقعات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ نسل کتنی حساس ہے۔ بلکہ برداشت کی قوت میں بھی ان میں کتنی کمی ہے۔ بروقت نظر پڑنے سے اگرچہ اب تک کئی نوجوانوں کو خودکشی کرنے سے روکا بھی گیا ہے لیکن خودکشی کے ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو کہ معاشرے کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ حال ہی میں ضلع کولگام کے نور آباد میں جو واقع پیش آیا وہ نہ صرف انتہائی افسوس ناک ہے بلکہ سماج کے ہر ذی حس کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
ایک رپوٹ کے مطابق ملک میں سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں اور نوجوانوں میں خودکشی کے معاملات میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ اگرچہ جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں خودکشی کے واقعات نا کے برابر دیکھنے کو ملتے تھے لیکن گزشتہ برسوں میں یہاں بھی ان واقعات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔