سرینگر: جموں و کشمیر کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما مولانا عباس انصاری آج سرینگر میں اپنی رہائش گاہ میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ چھیاسی برس کے تھے۔ مرحوم گزشتہ کئی مہینوں سے کافی علیل تھے۔ Mohammad Abbas Ansari passes away
مرحوم کا نماز جنازہ شعیہ آبادی والے علاقے زڈیبل میں آج دوپہر ادا کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔پولیس نے زڈبیل علاقہ میں سخت پہرہ لگایا گیا اور زڈیبل کو جانے والے خارجی و داخلی راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔دفعہ 370 کی منسوخی کے بعدمرحوم پہلے علیحدگی پسند رہنما ہیں جن کا نماز جنازہ بڑے پیمانے پر ادا کیا گیا۔ اس سے قبل حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی اور ان کے دیرینہ ساتھی محمد اشرف صحرائی کے نماز جنازہ کو انتظامیہ کی ہدایت کے بعد رات دیر گئے ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس میں محض ان کے قریبی رشتہ داروں کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
نم آنکھوں سے مولوی عباس انصاری سپرد خاک مولانا عباس انصاری حریت کانفرنس کے ان لیڈروں میں شامل تھے جو شدت پسندانہ اپروچ نہیں رکھتے تھے اور بھارت کے ساتھ مزاکرات کے طرفدار تھے چنانچہ انہی کی زیر قیادت حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے لیڈروں نے 2004 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے کئی دور کئے تھے۔ یہ مزاکرات اسوقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس بات چیت میں موجودہ حریت کانفرنس کے نظر بند چئیرمین میر واعظ عمر فاروق، بلال غنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور فضل الحق قریشی شامل تھے۔
عباس انصاری نوجوانی سے ہی کشمیر کی سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ وہ شیعہ فرقے کے ایک پرجوش لیڈر کی حیثیت سے 1965 میں موئے مقدس کی تحریک کے دوران متعارف ہوئے تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور انکا حلقہ اثر صرف سرینگر اور بڈگام کی شیعہ آبادی کے ایک حلقے میں ہی تھا تاہم 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے بعد وہ پورے کشمیر میں متعارف ہوئے اور انکی تنظیم مسلم متحدہ محاذ کی ایک اکائی بن گئی۔ کشمیر میں 1989 میں مسلح علیحدگی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد عباس انصاری حریت کانفرنس میں شامل ہوئے اور ان کی جماعت کو حریت کی تاسیسی اکائی تسلیم کیا گیا جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ حریت کی مجلس عاملہ کے رکن بنے۔
مولانا عباس انصاری کے انتقال پر سیاسی لیڈران کا اظہار تعزیت
کئی سیاسی رہنماؤں نے عباس انصاری کی رحلت پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ عباس انصاری نے اپنی زندگی امن اور اسلام کیلئے وقف کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کہ مرحوم اتحاد کے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسی وراثت چھوڑی ہے جو کشمیر کے لوگوں کے زہنوں اور دلوں پر ثبت رہے گی۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ غلام نبی شاہین نے بھی عباس انصاری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
میر واعظ کی قیادت والی حریت کانفرنس نے عباس انصاری کا انتقال پر خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ مولانا انصاری زندگی بھر مسئلہ کشمیر کو پر امن ذرائع سے حل کرانے کیلئے وکالت کرتے رہے۔
بیان میں کہا گیا کہ حریت کانفرنس کا سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے ساتھ پرویز مشرف اور آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میںبات چیت اور مذاکراتی عمل میںاس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کیلئے پیش پیش رہے اور حریت کانفرنس کو ہر سطح پر مضبوط اور فعال بنانے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
سی پی آئی (ایم) کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے عباس انصاری کے انتقال پر گہرے صدمے اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے سماجی اور مذہبی شعبوں میں خدمات قابل ذکر ہیں جنہوں نے برادریوں کے درمیان تعلقات کو ہم آہنگ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں:Mohammad Abbas Ansari passes away علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرس کے سابق چیئرمین مولانا عباس انصاری کا انتقال