سرینگر:جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل کے جنرل سکریٹری غلام نبی زکی کی قیادت میں تنظیم کے ایگزیکٹیو اراکین نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق کے33 ویں یوم شہادت اور حول قتل عام سے چند روز قبل پولیس کا یہ کہنا کہ انہوں نے تین دہائی سے زیادہ عرصہ تک جاری تفتیش میں شہید رہنما کے قتل میں ملوث ملزمین کو اب گرفتار کر لیا ہے، اور اگر وہ قتل میں ملوث ہیں تو انہیں جلد سے جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
تنظیم نے کہا کہ میر واعظ مولوی محمد فاروق ایک عظیم اسلامی مبلغ اور اعلیٰ انسانی خصوصیات کی حامل شخصیت کے مالک تھے، جن کا وحشیانہ قتل ایک انتہائی ناقابل معافی جرم ہے اور جن کی کمی عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ جو افراد اس طرح بے رحمی سے انسانی جانوں کے قتل میں ملوث ہیں وہ دنیا میں بھی ملعون ہیں اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لعنت و ملامت کے مستحق ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ تنظیم یہ سمجھتی ہے کہ شہید رہنما کے سانحہ شہادت کے ساتھ ساتھ 21 مئی 1990 کے حول قتل عام میں ملوث افراد کو بھی جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں بھی سزا دی جائے تاکہ اس سانحہ کے ساتھ مکمل انصاف ہو سکے۔گزشتہ کل جموں و کشمیر پولیس نے دعویٰ کیا کہ مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق کے قتل میں ملوث دو افراد کو سرینگر سے گرفتار کرلیا گیا اور انہیں دہلی منتقل کیا گیا یے۔واضح رہے کہ 21 مئی 1990 کو نامعلوم مسلح افراد نے مرحوم کو ان کی رہائش واقع نگین سرینگر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔
مزید پڑھیں:Mirwaiz Molvi Farooq Assassination Case سابق میرواعظ مولوی محمد فاروق قتل کیس میں دو ملزمین گرفتار
کشمیر کی خون آشام تاریخ میں میرواعظ کی ہلاکت، ایک سیاہ ترین باب ہے۔ میرواعظ پائین سرینگر کی سب سے مضبوط جماعت عوامی مجلس عمل کے سربراہ تھے۔ یہ تنظیم 1964 میں سانحہ موئے مقدس کے ردعمل میں معرض وجود میں آئی تھی۔ موئے مقدس حضرت بل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تبرک ہے جسے چرایا گیا تھا اور اس کے خلاف کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ میرواعظ کی ہلاکت کے فوراً بعد سرینگر شہر اور وادی کے دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ ہزاروں لوگوں پر مشتمل جلوس جنازہ جب پائین شہر کے حول علاقے میں پہنچا تو وہاں تعینات ایک بنکر میں سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے اندھادھند گولیاں چلائیں جس سے درجنون افراد ہلاک ہوگئے۔ اہلکاروں نے تابوت کو نشانہ بنایا اور عینی شاہدین کے مطابق کئی گولیاں میرواعظ کے جسد خاکی میں بھی پیوست ہوئیں۔
حکام نے کہا کہ یہ افراد کراس فائرنگ میں مارے گئے کیونکہ جلوس جنازہ میں موجود عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر گولیاں چلائی تھیں جس کے ردعمل میں انہون نے جوابی فائرنگ کی۔میرواعظ کی ہلاکت اور جلوس جنازہ پر فائرنگ کے بعد مرکزی حکومت نے گورنر جگموہن کو واپس طلب کرلیا۔ میرواعظ کی ہلاکت کے بعد ان کے اسکول میں زیر تعلیم فرزند مولانا محمد عمر فاروق کو ان کی جگہ کشمیر کا میرواعظ مقرر کیا گیا۔ بعد میں 1993 میں جب کُل جماعتی حریت کانفرنس کے نام سے علیحدگی پسند جماعتوں نے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا تو میرواعظ اس کے پہلے چیئرمین بن گئے۔ میرواعظ کی جماعت 21 مئی کو یوم شہداء مناتی ہے اور سرینگر کے عیدگاہ میں جہاں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی تھی، ایک عوامی اجتماع منعقد کرتی تھی جس کا سلسلہ 2019 تک جاری رہا۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد میرواعظ کی برسی پر عیدگاہ میں حکام نے کسی تقریب کے انعقاد کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ میرواعظ تب سے مسلسل ان کی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں۔