اردو

urdu

Pigeon fancying in Kashmir کشمیر میں کبوتر پالنے کے رجحان میں ہورہا ہے اضافہ

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 9, 2023, 6:14 PM IST

سرینگر کے پینتالیس سالہ جمالتہ علاقے کے رہنے والے فاروق احمد کے مطابق دفعہ 370 کی منسوخی،ایک کے بعد ایک لوک ڈاؤن،عالمی وبا کشمیر میں کبوتر بازی میں نوجوانوں کی دلچسپی کی اہم وجوہات ہیں۔۔ لوگ کبوتربازی اپنا خالی وقت گزارنے اور سماجی برائیوں سے دور رہنے کے لیے خریدتے ہیں۔The trend of Pigeon fancying is increasing in Kashmir

Pigeon fancying in Kashmir
Pigeon fancying in Kashmir

کشمیر میں کبوتر پالنے کے رجحان میں ہورہا ہے اضافہ

سرینگر: کبوتر پالنا کشمیر کا سب سے قدیم اور مقبول پیشہ ہے۔ کبوتروں کو نہ صرف ڈاکیہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا بلکہ ریسنگ (کرتب) کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ وہیں کشمیر میں کبوتر پالنے کو کوتربازی کہتے ہیں اور یہاں مغل بادشاہوں نے کبوتر پالنا متعارف کرایا۔نہ صرف کشمیر میں، کبوتربازی مشہور ہے بلکہ دیگر ریاستوں جیسے دہلی، آگرہ، چنئی، لکھنؤ وغیرہ میں ایک مقبول تفریح کا ذریعہ ہے۔جہاں چند برس قبل تک کشمیر میں کبوتر پالنا آوارہ لوگوں کا شوق مانا جاتا تھا وہیں اب اس کی طرف نوجوانوں کا رجحان بڑھا ہے۔۔ سرینگر کے پینتالیس سالہ جمالتہ علاقے کے رہنے والے فاروق احمد کے مطابق دفعہ 370 کی منسوخی،ایک کے بعد ایک لوک ڈاؤن،عالمی وبا کشمیر میں کبوتر بازی میں نوجوانوں کی دلچسپی کی اہم وجوہات ہیں۔۔ لوگ کبوتر اپنا خالی وقت گزارنے اور سماجی برائیوں سے دور رہنے کے لیے خریدتے ہیں۔

فاروق احمد جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کبوتربازی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہیکہ "انھوں نے اپنا آبائی مکان اور علاقہ چھوڑنے کے بعد کبوتربازی کو خیر آباد کہہ دیا تھا لیکن وہ زیادہ وقت تک اس سے دور نہیں رہ پائے۔ اپنے بچے کو سماجی برائیوں سے دور رکھنے کےلئے انھوں نے دوبارہ اس شوق کو اپنایا اور آج فاروق احمد کے پاس تقریباً 100 کبوتر ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ "کشمیر میں کبوتر امرتسر سے درآمد کیے جاتےہیں۔ اور ان کے پاس کبوتروں کئی اعلیٰ نسلیں ہیں جن میں رامپوری بھی شامل ہے۔ فاروق احمد کے مطابق وہ فروخت نہیں کرتے لیکن شوقیہ پالتے ہیں۔ فجر کے وقت کبوتروں کو دانا ڈالنا، اڑان کروانا اوران کے کرتب دیکھنا انہیں پسند ہے۔فاروق احمد کا کہنا ہے کہ کبوتر کی قیمت اس کی اڑان کی طاقت پر انحصار کرتی ہے۔ ایک جوڑا 20000 روپے کا بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کو پالنا آسان کام نہیں ہوتا، ہر روز چار بار دانے ڈالنا ہوتا ہیں جس میں مہینے کا خرچ تقریباً 7000 آتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:کبوتروں کے شائقین کی کہانی، انہیں کی زبانی

کبوتر کے کھیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "یہاں دیگر ریاستوں کی طرح کبوتروں کے مقابلے نہیں ہوتے بس جون اور جولائی کے مہینے میں ان کو اڑایا جاتا ہے، جس کو کچھ لوگ ریسنگ کہتے ہیں۔"اُن کا مزید کہنا تھا کہ "جب کوئی کبوتر مر جاتا ہے تو کافی دیکھ ہوتا ہے کیونکہ یہ ہمارے کنبے کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اس روز کھانا نہیں کھاتے۔ یہاں کبوتروں کو زیادہ جان کا خطرہ گرمیوں میں باز سے ہوتا ہے۔ وہ اڑان سے تھکے ہوئے کبوتر کو زندہ نہیں چھوڑتا۔"

فاروق اپنے لاپتہ کبوتر کے لیے ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ "اگر میرا کبوتر میرے دوست کی چوکی پر جا کر بیٹھتا ہے تو وہ تو لوٹا دیتا ہے لیکن اگر حریف کی چوکی پر بیٹھتا ہے تو اس کو رقم ادہ کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کبوتر ہوگا جس کی میں نے ابھی تک اڑان یا کرتب نہیں دیکھی ہو تب کافی افسوس ہوتا ہے لیکن میں ہزاروں روپے اس کو دوبارہ حاصل کرنے میں لگا سکتا ہوں۔"

فاروق احمد کے مطابق کشمیر میں یہ مانا جاتا ہے کہ کبوتر کے انڈے بچوں کو بولنے میں مدد کرتے ہیں حالانکہ یہ بات کہیں ثابت نہیں ہوتی بس یہ لوگوں کا عقیدہ ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details