خودکشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے۔ یہ کمزور اور مایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات، آزمائشوں اور زمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک غیر مذہبی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے۔
بد قسمتی سے وادی کشمیر میں خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور انتہائی قدم اٹھانے کا یہ رجحان آئے روز سنگین رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
وادی میں خودکشی کے واقعات رونما ہونے کی خبریں آئے روز سننے کو مل رہی ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں نوجوان یا خاتون نے گلے میں پھندا ڈال کر یا زہری شے کھا کر اپنی زندگی کا خاتمے کیا یا فلاں شخص نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر دیا۔ اگچہ اب تک کئی افراد کو خودکشی کرنے سے روکا بھی گیا ہے لیکن خودکش کے ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو کہ معاشرے کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
حال ہی میں وسطی کشمیر کے دو مختلف اضلاع میں ایک 75 سالہ خاتون نے مبینہ طور پر کوئی زہری شے کھا کر خود سوزی کی جبکہ ایک جواں سال غیر مقامی خاتوں نے بھی انتہائی قدم اٹھانے کی کوشش کی۔
ایک رپوٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران وادی کے مختلف علاقوں سے پانچ سو سے زائد ایسے افراد سرینگر کے ایس ایم ایچ ہسپتال میں داخل کرایا گیا جنہوں نے خودسوزی کی کوششیں کیں۔ جن میں سے 172 مرد جبکہ 343 خواتین اور لڑکیاں شامل تھیں۔ پانچ سو سے زائد افراد میں سے متعدد ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی یاتو دم توڑ چکے تھے یا دوران علاج دم توڑ بھیٹے۔
وہیں اٹھائے گئے انتہائی قدم کے بعد ہسپتال میں داخل کرائے گئے ان میں سے بیشتر افراد نے زہریلی شے نوش کر کے اپنی زندگی کا خاتمے کرنے کی کوشش کی تھی۔