اردو

urdu

ETV Bharat / state

سرینگر تصادم: پولیس بیانات اور اہلخانہ کے دعوے

پولیس نے تازہ بیان جاری کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے اہلخانہ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی یونیورسٹی میں فارم جمع کرنے کے لئے نہیں گیا تھا جیسا اہلخانہ نے دعویٰ کیا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

By

Published : Jan 1, 2021, 10:39 PM IST

اگرچہ سنہ 2020 میں ہوئے 103 تصادم کے دوران 225 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، وہیں سال 2020 کے آخر میں ہونے والا تصادم ہر گزرتے دن کے ساتھ موضوع بحث بنتا جا رہا ہے۔ جہاں سیکیورٹی فورسز لگاتار اس تصادم میں ہلاک شدگان کو عسکریت پسند بتا رہی ہے وہیں لواحقین فورسز کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگا رہے ہیں کہ انہیں 'فرضی جھڑپ' میں ہلاک کیا گیا۔

بدھ کے روز سرینگر میں واقع پولیس کنٹرول روم کے باہر ہلاک شدہ افراد کے رشتےداروں نے احتجاج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 'اُن کے عزیز عسکریت پسند نہیں تھے'۔

ادھر پولیس نے تازہ بیان جاری کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے اہلخانہ کے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی یونیورسٹی میں فارم جمع کرنے کے لئے نہیں گیا تھا جیسا اہلخانہ نے دعویٰ کیا ہے۔

جموں: امر سنگھ کلب میں گیس سلینڈر پھٹنے سے چھ افراد زخمی

پولیس نے کہا کہ 'جہاں تک اعجاز مقبول گنائی جو تین ہلاک شدگان میں سے ایک ہے، کے اہلخانہ کے دعوؤں کا تعلق ہے کہ وہ یونیورسٹی فارم جمع کرنے کے لیے گیا تھا، اس بات کو جدید تکنیکوں اور ٹیلی کام محکمہ کے ریکارڈس کی وساطت سے ویریفائی کیا گیا جس سے یہ انکشاف ہوا کہ اعجاز اور اطہر پہلے حیدر پورہ گئے تھے اور اس کے بعد جائے واردات پر پہنچے تھے'۔

پولیس کے مطابق لاوے پورہ میں محاصرے کے بعد عسکریت پسندوں نے عمارت کے اندر سے سیکورٹی فورسز کی ایک تلاشی پارٹی پر گرینیڈ پھینکا اور فائرنگ بھی کی۔

پولیس نے بیان میں کہا ہے کہ زبیر پہلے پلوامہ گیا تھا پھر اننت ناگ اور اس کے بعد شوپیاں سے پلوامہ اور آخر میں وہ بھی جائے واردات پر جا پہنچا تھا'۔

پولیس بیان کے مطابق اعجاز مقبول اور اطہر مشتاق دونوں عسکریت پسندوں کے معاون تھے اور ان لوگوں نے اس سے قبل بھی عسکری تنظیم لشکر طیبہ کی مدد کی تھی۔

واضح رہے کہ پولیس کا بیان اس وقت سامنے آیا جب رکن پارلیمان جسٹس (ریٹائرڈ) حسنین مسعودی نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے کے حوالے سے انہوں نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے اس سلسلے میں بات کی ہے اور ان کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پولیس اس کیس کی تمام تر جہات سے تحقیقات کر رہی ہے۔

گلمرگ میں نئے سال کے موقع پر سیاحوں کا ہجوم

پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 'زیر حراست ایک عسکری معاون سے بھی پتہ چلا ہے کہ اعجاز کے لشکر کے عسکریت پسند مشتاق بابا کے ساتھ تعلقات تھے۔ بابا کو گزشتہ برس جون کے مہینے میں پانپور میں ہوئے ایک تصادم کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ اطہر حزب المجاہدین سے وابستہ عسکریت پسند رئیس کاچرو کا رشتہ دار اور معاون تھا۔ کاچرو کو سنہ 2017 میں ہلاک کیا گیا تھا اور اس وقت اطہر مشتاق کی عمر محض 13 سال تھی۔ اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہے'۔

ان ہلاکتوں کی مخالفت میں جمعہ کے روز کشمیر کے متعدد علاقوں خصوصاً سرینگر میں احتجاجاً غیر اعلانیہ ہڑتال دیکھنے کو ملی اور کاروباری ادارے و دکانیں بند رہیں۔

اہل خانہ کی جانب سے کیے گئے دعوؤں کے سبب کشمیر کی بڑی علاقائی سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس سے وابستہ رہنماؤں نے انکاؤنٹر کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے لیفٹینٹ گورنر کو ایک مکتوب لکھا ہے جس میں اس انکاؤنٹر کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے لواحقین کو ہلاک شدگان کی جسد خاکی سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

نئی پہل: 'دیوار مہربانی' کے ذریعہ غرباء کی امداد

لیفٹیننٹ گونر کے نام تحریر مکتوب میں محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ 'یہ تصادم ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امشی پورہ شوپیان فرضی تصادم سے متعلق رپورٹ میں آرمی کیپٹن کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔ سرینگر میں 30 دسمبر کو پیش آئے تصادم میں ہلاک ہونے والے تین لڑکوں میں ایک صرف 17سال کا نوجوان ہے، اس تصادم میں بھی تین افراد کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ لواحقین نے اسے فرضی تصادم قرار دیا ہے'۔

جموں و کشمیر میں اکثر انکاؤنٹر جموں و کشمیر پولیس کی خصوصی ٹیم، سی آر پی ایف اور فوج مشترکہ طور پر کرتی ہے۔ بدھ کے روز جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے جاری بیان میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ تصادم فوج، پولیس اور سی آر پی ایف کا مشترکہ آپریشن تھا۔ تاہم آج کے بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے 'فوج کو مصدقہ اطلاع ملنے کے بعد ہی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس نے مشترکہ طور پر تصادم انجام دیا'۔

پولیس نے ایک بیان میں تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ یہ تینوں سرگرم عسکریت پسندوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، تاہم ان میں سے دو عسکری معاون تھے۔ آج جاری بیان میں پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اعجاز مقبول اور اطہر مشتاق دونوں عسکری معاون تھے اور انہیں اس سے قبل بھی کسی نہ کسی طرح کی مدد فراہم کر رہے تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details