انہوں نے کہا کہ ہارٹیکلچرل شعبے کی طرح کی زرعی سیکڑ کو بھی تجارتی سطح پر ترقی دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زمینداروں کی معاشی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔
ناظم زراعت سید الطاف اعجاز اندرابی ناظم زراعت سید الطاف اعجاز اندرابی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خاص بات چیت کے دوران کہا کہ زرعی پیداوار میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے اور 2019 زرعی پیداوار کے اعتبار سے کافی بہتر سال ثابت ہوا۔ وہیں انہوں نے امید ظاہر کی رواں سال میں دھان، مکئی اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔انہوں نے کہا کہ سبزی کی پیدوار میں کشمیر وادی خودکفیل ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ بہت کم سبزیاں باہر کی ریاستوں سے درآمد ہوتی ہے اور جو مختلف سبزیاں بازارواں میں دستیاب وہ اکثر سبزیاں یہی کی تیار کردہ ہے۔ تاہم ناظم زراعت نے اس بات پر زوردیا کہ سبزی کی طرح دیگر فصلوں کو بھی تجارتی سطح پر وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔ایک سوال کے جواب میں سید الطاف اعجاز اندرابی نے کہا کہ پیداواری صلاحت بڑھانے کے لیےمحمکہ بنا کسی تاخیر یا طوالت کے کسان کرڈیڈ کارڈ کے زریعہ آسان قسطوں میں قرضہ فراہم کرواتا آیا ہے اور آئے گے بھی مالی لحاظ سے کسانوں کو فائدہ پہچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاکہ بیچ، کھاد اور دیگر ضروریات پورا کرنے کے لیے پیسہ کے اعتبار سے زمیندار کو کسی بھی قسم کی پریشانی یا زہنی کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔مختلف اسکیموں پر بات کرتے ہوئے سید الطاف اعجاز اندرابی کا کہنا تھا کہ محکمہ کے پاس اس وقت کئی اسکیمیں موجود ہیں جس کا فائدہ کسانوں کو اٹھانا چائیے۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا فنڈس کی کمی کے باعث ہر ایک زمیندار وقت پر مزکورہ اسکیموں سے استفادہ نہیں کر پاتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا مرحلہ وار بنیادوں پر ہر ایک ہر ایک زرعی اسکیموں کا فائدہ اٹھاسکتا ہے۔قومی زعفران مشن پر بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایگریکلچرل نے کہا کہ پانپور میں اس پروجیکٹ پر اریگیشن کے بغیر لگ بھگ کام مکمل ہوچکا ہے ۔گزشتہ سال 5اگست سے لے کر اب تک صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی زعفران مشن کے تحت زیر التوا کام کو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ جس سے زعفران کاشت کاروں کو کافی فائد ہوگا۔زرعی زمین کو تعمیراتی ڈھانچوں، شاپنگ کمپلیکسز اور رہاشی مکانوں میں تبدیل کیے جانے کے ایک سوال کے جواب ناظم زراعت نے کہا کہ اس کی روک تھام کے لیے صرف سرکاری ایجنسیوں پر ہی نظر نہیں رکھنی چائیے۔ بلکہ سرکار کے ساتھ ساتھ عام لوگوں پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا احساس ادراک کریں کہ وہ آنے والے نسلوں کے لیے کیا کر کے جارہے ہیں ۔