سرینگر کے بٹہ مالو میں 17 ستمبر کو ہوئے انکاؤٹر کے دوران ایک 45 سالہ خاتون کوثر ریاض ہلاک ہوگئیں۔ پندرہ دن قبل کوثر کے گھر میں انکے فرزند کی شادی کی شہنائیاں گونجی تھیں لیکن رات کی تاریکی میں چلائی گئی چند گولیوں نے اس گھر کی خوشیاں ہمیشہ کیلئے چھین لیں۔
روٹیاں بنانا کوثر کا آبائی پیشہ تھا۔ روزانہ کی طرح وہ صبح کاذب سے پہلے اپنے بیٹے کے ہمراہ دکان کی جانب روانہ ہوئیں تاکہ نماز فجر سے پہلے گاہکوں کیلئے روٹیاں تیار کرسکیں۔ لیکن آج انکے محلے کی سڑک پر غیر معمولی نقل و حرکت تھی۔ کوثر نے خطرہ بھانپ کر بیٹے کو گاڑی واپس موڑنے کے لیے کہا لیکن اس سے پہلے ہی ان پر فائرنگ ہوگئی۔ ایک گولی انکے سر کو چیرتے ہوئے نکل گئی۔
سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ کوثر ریاض کراس فائرنگ کے دوران ہلاک ہوئی ہیں، تاہم اہل خانہ نے اس کا الزام سیکیوڑتی فورسز پر عائد کیا ہے۔
کوثر ریاض کے فرزند عاقب ریاض صوفی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں نے گاڑی موڑی اور واپسی پر کچھ مسافت طے کی لیکن اسی دوران اچانک پیچھے سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ " کافی منت سماجت کرنے کے بعد وہاں موجود اہلکاروں نے ہمیں پولیس کنٹرول روم کے ہسپتال منتقل کیا۔ جہاں میری والدہ کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ میں نے اپنے رشتہ داروں کو فون کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ علاقے میں تصادم آرائی جاری ہے کسی نے ہمیں روکا بھی نہیں، بس گولیاں چلیں اور میری ماں کی جان چلی گئی۔"
کوثر کے شوہر سینوں کے امراض کے خصوصی اسپتال میں نائٹ ڈیوٹی دے رہے تھے جہاں آجکل کووڈ مریضوں کا علاج چل رہا ہے۔ انہیں بیٹے نے فون پر اس سانحے کی اطلاع دی ۔دن بھر لاش پولیس کنٹرول روم میں رکھی گئی اور رات دیر گئے اسے لواحقین کو سونپا گیا۔ اس ہلاکت سے صوفی خانوادہ سکتے میں آگیا ہے۔
اب اس کے پیچھے کی اصل کہانی کیا ہے یہ تو جانچ کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن تصادم کے دوران ایک اور عام شہری کی ہلاکت تو ہوگئی جس کی بھرپائی کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔
ہلاک شدہ خاتون کے پڑوسی کہتے ہیں کہ وہ روزانہ اسی وقت دکان پر چلی جاتی تھیں لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ معمول انکی موت کا باعث بن سکتا ہے۔