وادی کشمیر میں سابق فوجی اہلکاروں کے لیے پہلی مرتبہ ایسی کالونی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جبکہ جموں ضلع میں تین سینک کالونیاں پہلے ہی تعمیر کی جا چکی ہیں جہاں سابق فوجی اہلکار اور انکے اہل خانہ برسوں سے رہائش پذیر ہیں۔
مرکزی سرکار کی جانب سے گزشتہ برس پانچ اگست کو دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے ایک حکمنامے کے تحت یو ٹی میں سرکاری اراضی و کاہچرائی کی نشاندہی کرنے کی کارروائی کی تھی۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہر ضلع میں سرکاری اراضی کو جمع کرکے ’’لینڈ بنک‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں جو صنعت و تجارتی سرگرمیوں کے لیے مخصوص رکھے جائیں گے۔
ماہ جنوری میں ای ٹی وی بھارت نے اس ضمن میں ایک مفصل رپورٹ نشر کی تھی کہ سرکار نے کشمیر کے دس اضلاع میں 203020 ایکڑ سرکاری اراضی موجود ہونے کی رپورٹ متعلقہ تحصیلداروں کی جانب سے پیش کی تھی جن میں 15 ہزار ایکڑ زمین کی نشاندہی کی گئی تھی۔
تاہم اس پیش رفت پر عوام میں کئی خدشات پائے جا رہے ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’لینڈ بنک‘‘ کو صنعتی سرگرمیوں سے منصوب کرنا دراصل سرکاری اراضی پر سینک کالونیوں جیسے منصوبے کو عمل میں لانا ہے۔
انتظامیہ نے پانچ اگست کے بعد کاہچرائی کی نشاندہی بھی کی تھی جہاں تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ’’جواہر لال نہرو ویدیالیہ اسکول‘‘ تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکاری اراضی اور کاہچرائی پر رہائشی مکانات یا صنعتی ادارے تعمیر کرنا لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
سماجی کارکن ڈاکٹر شیخ غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’’کاہچرائی ہو یا سرکاری اراضی یہ دونوں عام لوگوں کی روز مرہ سہولیات کے لیے دستیاب رکھنا ہوتا ہے۔‘‘