سینتیس برس قبل آج کے ہی روز دلی کی تہاڑ جیل میں لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بھٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ ان کی لاش لواحقین کے سپرد کرنے کے بجائے جیل احاطے میں ہی دفن کی گئی تھی۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر میں اس روز علیحدگی پسندوں کی کال پر مکمل ہڑتال کی جاتی تھی لیکن 5 اگست 2019 کے واقعات کے بعد کشمیر کی زمینی صورتحال میں آئی تبدیلیوں کے بعد صورتحال قدر بدل گئی ہے۔
گوکہ علیحدگی پسندوں نے 11 فروری کو ہڑتال کی کال دی تھی لیکن اس کا جزوی اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
نو فروری کو افضل گرو کی برسی پر بھی ہڑتال کا جزوی اثر رہا۔ افضل گرو کو بھی پارلیمنٹ حملے میں ملوث ہونے کی پاداش میں 2013 میں پھانسی دی گئی تھی اور مقبول بھٹ کی طرح ان کی لاش بھی لواحقین کو نہیں سونپی گئی۔
مقبول بھٹ کو تحتہ دار پر چڑھانے کے وقت جموں و کشمیر میں فاروق عبداللہ برسراقتدار تھے جبکہ افضل گورو کی بھانسی کے وقت عمر عبداللہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان تھے۔
حکام نے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے سری نگر شہر اور دیگر مقامات پر سکیورٹی دستے تعینات کردئے ہیں۔
مقبول بھٹ خودمختار جموں و کشمیر کے نظریے کی ممنوعہ تنظیم جے کے ایل ایف کے بانی تھے۔ اس تنظیم پر 2018 میں پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ اس کے چیئرمین محمد یاسین ملک پر سرینگر میں ایئرفورس کے ملازمین پر 1990 میں کئے گئے ایک حملے میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
حکام نے تنظیم کے دفاتر بند کردئے اور یاسین ملک سمیت اہم رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
شمالی کشمیر کے گاؤں ترہگام، کپوارہ کے رہنے والے بھٹ نے 60 کی دہائی میں لائن آف کنٹرول کو عبور کیا تھا اور زیر زمیں سرگرمیوں کے ذریعے بھارت مخالف مہم شروع کی تھی لیکن بعد میں وہ دوبارہ کشمیر لوٹ آئے۔