سرینگر: حیدرپورہ متنازع انکاؤنٹر سے متعلق عرضی پر سماعت کے دوران جموں و کشمیر پولیس نے سُپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ 'سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تصادم میں مارے گئے لوگوں کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے اسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کے دروازے کھل جائیں گے۔ Supreme court on Hyderpora encounter جموں و کشمیر انتظامیہ نے کہا کہ لاشوں کو اہل خانہ کے حوالے کرنے سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 15 نومبر 2021 کو عامر ماگرے، الطاف بٹ اور مدثر گل اور ایک عسکریت پسند سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں ایک تصادم آرائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ ان کی لاشوں کو سرینگر سے تقریباً 100 کلومیٹر دور شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقے میں دفن کیا گیا تھا۔ SC Reserves Order on Hyderpora Controversial Encounter تصادم کے دوران ہلاک ہوئے تین مقامی شہریوں کے لواحقین نے احتجاج شروع کیا اور حفاظتی اہلکاروں پر فرضی انکاؤنٹر کے دوران عام شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا۔ لواحقین نے انتظامیہ سے لاشیں ان کے سپرد کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
عوامی احتجاج کے پیش نظر انتظامیہ پہلی بار بٹ اور گل کی لاشیں لواحقین کے سُپرد کر دی تھی جبکہ ماگرے کے والد محمد لطیف نے بھی اپنے فرزند کی لاش کے حصول کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ محمد لطیف نے دعویٰ کیا کہ ماگرے عام شہری تھا تاہم لیکن پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک عسکریت پسند تھا۔ Aamir Magrey Last Rites لطیف نے لاش کی حصولیابی کے لئے پہلے ہائی کورٹ بعد ازاں سُپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
پیر کو جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا پر مشتمل (سپریم کورٹ کی) بینچ نے فریقین کو سننے کے بعد معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھا۔ جموں و کشمیر انتظامیہ کے وکیل اردھندومولی پرساد نے عدالت کے سامنے دلیل دی کہ بہت سے عسکریت پسند تصادم آرائی کے دوران ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگر ان کی لاشوں کی واپسی کی اجازت دی جاتی ہے تو کورٹ آخری رسومات ادا کرنے کے لیے اسی طرح کی درخواستوں سے بھر جائے گی۔
پرساد کا مزید کہنا تھا کہ 'جہاں تک اس کیس کا تعلق ہے وہ (عامر ماگرے) ایک عسکریت پسند تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کئی افراد کو جان بوجھ کر آبائی جگہوں پر اس وجہ سے دفن نہیں کیا گیا کہ اس میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا حاصل ہوتا ہے۔ آبائی علاقوں میں عسکریت پسندوں کو دفن کرنے سے عسکریت پسند سوچ کو فروغ ملتا ہے، عسکریت پسند ایسے حالات میں جنازوں میں چپکے سے شرکت کرکے نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں عسکری صفوں میں شامل کرنے کے لیے راغب کرتے ہیں۔‘‘ پرساد کے مطابق ’’یہی وجہ ہے کہ ریاست شعوری طور پر انہیں آبائی قصبہ یا گائوں میں نہیں دفناتی۔‘‘
مزید پڑھیں:Aamir Magray Dead Body: عدالتی فرمان کے باجود عامر ماگرے کے اہل خانہ ابھی تک بیٹے کی لاش سے محروم
اپریل 2020 سے پولیس نے کووڈ پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر میں عسکریت پسندی مخالف کارروائیوں میں مارے گئے عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیں۔ اس کے بجائے انہیں سرحدی علاقوں کے دور دراز قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ سنہ 2020 میں کم از کم 158 افراد، جن میں زیادہ تر عسکریت پسند تھے، کو ان ہی مقامات پر دفنایا گیا تھا جب کہ گزشتہ سال تقریباً 180 لاشیں دفن کی گئی تھی۔