جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے دریائے جہلم اور دیگر بڑی ندیوں سے ریت اور باجری نکالنے کا ٹھیکہ غیر مقامی لوگوں کو سونپا۔ قبل ازیں کسی بھی غیر مقامی ٹھیکیدار کو ریت نکالنے کا ٹھیکہ یا اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
وادی کشمیر میں مچھلیوں کے وجود پر خطرات کے بادل اس فیصلے سے جہاں یو ٹی میں متعدد افراد کا روزگار متاثر ہوا وہیں ان آبی ذخائر کے اطراف کا ماحول اور ان میں پلنے والی مچھلیوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
محکہ ماہی پروری کے مطابق وادی کشمیر میں جہلم اور دیگر ندیوں سے ہر سال بیس ہزار ٹن مچھلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ مچھلیاں وادی میں سینکٹروں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے علاوہ ان آبی ذخائر کے ماحولیاتی توازن کو بھی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
گزشتہ برس انتظامیہ نے جہلم میں سرینگر، بارہمولہ اور پلوامہ اضلاع میں 200 مقامات کا انتخاب کرکے ٹھکہ داروں کو ریت اور باجری نکالنے کی اجازت دی۔ انتطامہ کا کہنا ہے کہ ان ٹھیکوں سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
لیکن ماہرین ماحولیات کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ دریاؤں یا ندیوں سے ریت یا باجری نکالنے کا فیصلہ غلط نہیں ہے، لیکن اس میں آبی وسائل کے تحفظ کو بھی بروئے کار لانا ہوگا اور اس میں پَل رہی مچھلیوں کے رکھ رکھاؤ پر بھی خاص توجہ دینی ہوگی۔
کشمیر میں ماحولیات پر نظر رکھنے والے صحافی اطہر پرویز نے ای ٹی و ی بھارت کو بتایا کہ ریت اور باجری نکالنے کا فیصلہ غیر سائنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے، اس فیصلے سے آبی وسائل کو خطرات لاحق ہوں گے نیز مچھلیوں کی زندگیاں اس میں تباہ ہوجائیں گی۔ حکومت کا یہ فیصلہ یکطرفہ ہے جس پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔
کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عرفان رشید نے بتایا کہ بے تحاشہ ریت اور باجری نکالنے سے آبی ماحولیاتی کی صورت بگڑ جاتی ہے جس سے ان کا ہبیٹٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔