اردو

urdu

ETV Bharat / state

کورونا وائرس: کہاں گئے سحر خوان - سالہا سال سے چلی آرہی روایت بھی متاثر

عالمی وبا کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن نے جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں تمام تر معمولات زندگی کو دربرہم کرکے رکھ دیا ہے وہیں وادی کشمیر میں ماہ صیام میں سحری کے وقت سحر خوانوں کی طرف سے لوگوں کو مختلف طریقوں سے جگانے کی سالہا سال سے چلی آرہی روایت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔

کورونا وائرس: کہاں گئے سحر خوان
کورونا وائرس: کہاں گئے سحر خوان

By

Published : Apr 25, 2020, 2:06 PM IST

بتادیں کہ وادی کے شہر ودیہات میں عصر حاضر کے ہائی ٹیک دور میں بھی لوگوں کو سحری کے وقت بیدار کرنے کے لئے سحر خوان بارشیں ہوں یا برف باری میں گلی گلی اور قریہ قریہ گھوم کر کہیں ڈھول بجا کر تو کہیں بلند آواز میں 'وقت سحر' کہہ کہہ کر لوگوں کو نیند سے بیدار کرتے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ سرینگر کئی علاقوں میں سحری کے وقت سحر خوانوں کے بجائے مساجد میں لاوڈ اسپیکروں سے اعلانات کے ذریعے لوگوں کو بیدار کیا گیا جس سے لوگ تو اٹھ گئے لیکن وہ روایتی لطف وسکون غائب تھا۔

تاہم کچھ علاقوں میں سحر خوانوں کو سحری کے وقت ہاتھوں میں ڈھول اور چھڑی لئے ہوئے محلوں میں جاکر لوگوں کو نیند سے جگانے میں مصروف دیکھا گیا۔ سحر خوان لوگوں کو نیند سے جگانے کے لئے ڈھول بجانے کے علاوہ قرآنی آیات اور نعت شریف اونچی آواز سے پڑھتے ہیں۔

سرینگر کے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے فیاض احمد نامی ایک شہری نے بتایا کہ سحری کے وقت مسجدوں سے کیے جانے والے اعلانات سے ہم بیدار ہوگئے۔

انہوں نے کہا: 'وبا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے دیرینہ روایتوں کو بھی متاثر کررہا ہے، ہمارے محلے میں ایک سحر خوان سحری کے وقت لوگوں کو نیند سے بیدار کرتا تھا لیکن آج سحری کے وقت ہمارے محلہ کی مسجد سے لاوڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کرکے لوگوں کو بیدار کیا گیا جس سے لوگ بیدار تو ہوگئے وہ سکون اور لطف غائب تھا۔

فیاض احمد نے کہا کہ جو سحر خوان ہمارے محلے میں گذشتہ کئی برسوں سے یہ کام انجام دیا کرتا تھا وہ بھی گھر میں ہی بند ہوگیا ہے۔

وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے شبیر احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں بھی پہلی بار سحر خوان کے ڈھول کی آواز سننے کے بجائے لوگ اپنے موبائل فونوں کے الارم بجنے سے سحر کے وقت اٹھ گئے۔

انہوں نے کہا: 'ہمارا گاؤں کافی بڑا ہے، ماہ رمضان سے قبل ہی ایک دن سحر خوان یہاں ڈیرہ زن ہوکر سحر کے وقت لوگوں کو ڈھول بجا کر بیدار کرتے تھے لیکن امسال ان میں سے کوئی بھی یہاں نہیں آیا اس لئے لوگ اپنے موبائل فونوں کے الارم سے اٹھتے ہیں اور ایک دو محلوں میں مسجدوں میں موذن بھی اعلان کرکے لوگوں کو سحری کھانے کے لئے اٹھاتے ہیں'۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس کی بدولت موبائل فونوں اور گھڑیوں میں الارم کی سہولت آنے کے بعد بھی وادی میں سحر خوانوں کا لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کا سلسلہ نہیں رکا۔

بیشتر سحرخوانوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی آمد کا انتظار سال بھر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ عیدالفطر کے موقع پر لوگ ہمیں اس کام کے عوض پیسہ اور ملبوسات و گھریلو استعمال کی چیزیں انعام کے طور پر دیتے ہیں لیکن سحری کے وقت لوگوں کو جگانے سے ہمیں دلی سکون ملتا ہے۔ تاہم انہیں اس بار دکھ ہے کہ وہ لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا فریضہ سر انجام نہیں دے پائے'

ABOUT THE AUTHOR

...view details