قریب چار ہفتے قبل پیدا ہوئی بچی کو مبینہ طور جبراً والدہ سے الگ کرنے کے معاملے پر جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے سخت رویہ اپناتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کو آئندہ سماعت سے قبل بچی کو بازیاب کرکے والدہ کے حوالے کرنے کے احکامات صادر کیے۔ کورٹ نے معاملے کی اگلی سماعت رواں مہینے کی چھہ تاریخ (پیر) کو مقرر کی ہے۔
گزشتہ روز معاملے کی تیسری سماعت کے دوران جسٹس علی محمد ماگرے نے پولیس کو حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا ’’ابھی تک بچی کو بازیاب نہیں کیا گیا اور بیشتر جواب دہندگان فرار ہیں۔ معاملے کی اہمیت کو سمجھ کر پولیس اپنی کارروائی میں تیزی لائے اور معاملے کی آئندہ سماعت سے قبل بچی کو بازیاب کرکے اس کی والدہ کے حوالے کرے۔‘‘
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ ’’پولیس درخواست گزار خاتون کی حفاظت کا پورا خیال رکھے۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی بچی کو قتل کرنے کی غرض سے اغوا کیا گیا ہے، اس لحاظ سے تحفظ فراہم کرنا لازمی ہے۔‘‘
جسٹس علی محمد ماگرے کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر آئندہ سماعت سے قبل پولیس بچی کو بازیاب کرتی ہے تو عدالت کی جانب سے دیے گئے رہنما خطوط پر عمل کرے۔‘‘
مزید پڑھیں:گیلانی کی وفات: کشمیر میں تیسرے روز جزوی بندشیں برقرار
واضح رہے کہ اگست کی 31 تاریخ کو اس معاملے پر ہوئی پہلی سماعت کے دوران عدالت نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عدالت خاموش تماشائی کی حیثیت سے کام نہیں کر سکتی اور انصاف کے مفاد میں بچی کی زندگی اور صحت کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے‘‘۔
جسٹس علی محمد ماگرے نے کہا کہ ’’اس (بچی) کی صحت یابی کو یقینی بنانے کے علاوہ بچی کو جنم دینے والی ماں کو اذیت ناک صورتحال سے بچانا بے حد ضروری ہے۔‘‘
عدالت نے یہ فیصلہ ایڈوکیٹ اریب جاوید کاووسا کی جانب سے جموں کی ایک خاتون کی درخواست پر سماعت کے دوران صادر کیا، جس میں کہا گیا کہ اس کی 24 دن قبل پیدا ہوئی بیٹی کو سسرال والوں نے زبردستی چھین لیا ہے۔