اسمارٹ میٹرز کی تنصیب میں مزاحمت کا سامنا سرینگر (جموں و کشمیر):سمارٹ میٹرز کی تنصیب کے خلاف ہفتے کے روز سرینگر شہر کے شالیمار علاقے کے باشندوں نے احتجاج کرتے ہوئے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب سے روک دیا۔ مقامی باشندوں نے بتایا کہ متعلقہ محکمہ کے اہلکار علاقے میں سمارٹ میٹر نصب کرنے آئے تھے تاہم اس اقدام کے خلاف مقامی باشندوں نے احتجاج درج کرتے ہوئے ٹریفک کی نقل و حمل مسدود کر دی۔ احتجاجی مظاہرین نے پی ڈی ڈی محکمہ کے خلاف نعرے بازی بھی جس کے بعد علاقے میں اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کے عمل کو روک دیا گیا۔
میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے مقامی باشندوں نے بتایا کہ علاقے میں پہلے ہی ماہانہ بجلی بلوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی ادائیگی لوگوں کے لئے ممکن نہیں تاہم اب اسمارٹ میٹرز کی تنصیب سے ماہانہ بجلی بل میں بے حد اضافہ ہوگا جو غریب عوام کے برداشت سے باہر ہے۔ انہوں نے حکام سے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب پر روک لگائے جانے کا مطالبہ کیا۔
احتجاجیوں نے اسمارٹ میٹرز کو ’’غریبوں کے لیے ظلم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’کشمیر کے بیشتر باشندے خط اطلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لیے اسمارٹ میٹرز کا مزید بوجھ برداشت کرنا نا ممکن ہے۔‘‘ احتجاج میں شامل ایک مقامی باشندے نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے افسران کے لیے پانچ یا چھ ہزار روپے بجلی کا بل ادا کرنا کوئی مشکل کام نہیں تاہم جو غریب، مزدور بمشکل اپنے اور اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہے ہیں ان کے لیے بجلی بلوں کا مزید بوجھ برداشت کرنا نا ممکن ہے۔
مزید پڑھیں:Pulwama Protest Against PDD: ملہ پورہ، پلوامہ میں محکمہ بجلی کے خلاف احتجاج
مظاہرین نے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کی اجازت نہیں دیں گے۔ ادھر، محکمہ بجلی کے اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ ’’اسمارٹ میٹرز کے بارے میں عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے، ان کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر اسمارٹ میٹرز کی وجہ سے بجلی بلوں میں اس قدر اضافہ ہوتا تو حکومت ایسے منصوبے کو کبھی بھی منظور نہیں کرتی ہے جس سے عوام کو بلوں کا ناقابل برداشت بوجھ سہنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسمارٹ میٹر کی تنصیب سے بجلی کی فراہمی بھی حد درجہ بہتری آئے گی۔ تاہم بدقسمتی کا مقام ہے کہ کچھ علاقوں میں لوگ اس پیش رفت کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ سمارٹ میٹر پورے ملک میں مرکزی اسپانسرڈ اسکیم کے تحت لگائے جا رہے ہیں اور یہ سب کی بھلائی کے لیے ہے۔‘‘