اردو

urdu

ETV Bharat / state

Mufti Sayeed’s Death Anniversary مفتی محمد سعید: جن کا انجام خوشگوار نہیں رہا

مرحوم مفتی محمد سعید 7 جنوری 2016 کو انتقال کر گئے تھے جس کے بعد انہیں اپنے آبائی علاقہ ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ میں سپر خاک کیا گیا۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں سرینگر کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد انکی طبعیت بگڑ گئی جسکے بعد انہیں علاج کیلئے دلی لیجایا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکےMufti Sayeed’s Death Anniversary۔

مفتی محمد سعید: جن کا انجام خوشگوار نہیں رہا
مفتی محمد سعید: جن کا انجام خوشگوار نہیں رہا

By

Published : Jan 7, 2022, 12:29 PM IST

Updated : Jan 11, 2022, 9:16 AM IST

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید اپنے سیاسی کیریئر میں تقریبا چھ دہائیوں تک طاقتور عبداللہ خاندان کے خلاف مضبوط حریف بن کر کھڑے رہےMufti Sayeed’s Death Anniversary۔

مفتی محمد سعید: جن کا انجام خوشگوار نہیں رہا

مرحوم مفتی محمد سعید کی دختر اور جموں و کشمیر کی آخری وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی سمیت کئی سینیئر رہنماؤں نے مرحوم کے مزار پر حاضری دے کر گلباری کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا۔

مرحوم مفتی محمد سعید 7 جنوری 2016 کو انتقال کر گئے تھے جس کے بعد انہیں اپنے آبائی علاقہ ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ میں سپر خاک کیا گیا۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں سرینگر کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد انکی طبعیت بگڑ گئی جسکے بعد انہیں علاج کیلئے دلی لیجایا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکے۔

مفتی سعید 12 جنوری سنہ 1936ء کو ضلع اننت ناگ کے قصبہ بجبہاڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لے کر کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں کشمیر میں کانگریس کی کمان سونپی تھی

مفتی سعید سنہ 1972 میں کابینی وزیر بنے اور اسمبلی میں کانگریس کے لیڈر بھی رہے۔ سنہ 1975 میں سعید کو کانگریس قانون ساز پارٹی کا لیڈر اور ریاستی کانگریس کا صدر بنایا گیا۔

سنہ 1986 میں مرکز میں راجیو گاندھی کی حکومت میں بطور کابینی وزیر برائے سیاحت شامل ہونے کے ایک سال بعد میرٹھ فسادات سے نمٹنے میں کانگریس پر ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے مفتی محمد سعید نے استعفی دے دیا Political Career of Mufti Syeed۔

مفتی محمد سعید سنہ 1950 کی دہائی میں غلام محمد صادق کی سرپرستی میں ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس کے رکن بھی رہے۔ سعید نے 1962 میں ڈی این سی کی قیادت میں انتخابات میں فتح حاصل کرکے سیاسی سفر کی شروعات کی تھی۔ مفتی نے 1967 میں دوبارہ کامیابی حاصل کی، جس کے بعد صادق نے انہیں نائب وزیر بنایا تھا۔

وہیں سنہ 1989 میں وہ وی پی سنگھ کی حکومت میں ملک کے پہلے مسلم وزیر داخلہ بنے۔ مفتی محمد سعید جموں و کشمیر کے 12 ویں وزیر اعلیٰ تھے۔

اپنی دختر محبوبہ مفتی کے ساتھ 1999 میں پی ڈی پی کا قیام عمل میں لانے سے قبل سعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا طویل عرصہ کانگریس کے ساتھ رہ کر گزارا۔

پارٹی کے قیام کے صرف تین سال بعد وہ 2 نومبر سنہ 2002ء کو جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ مفتی محمد سعید نے ایک منفرد سیاسی کھلاڑی کی طرح قومی اور علاقائی سیاست میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ وہ اپنے سیاسی کیریئر میں تقریبا چھ دہائیوں تک طاقتور عبداللہ خاندان کے خلاف مضبوط حریف بن کر کھڑے رہے۔

سنہ 1999 میں پی ڈی پی کے قیام کے صرف تین سال بعد ہی انہوں نے سنہ 2002 میں کانگریس کی حمایت سے ریاست میں اپنی حکومت قائم کی۔ تاہم 2008 کے اسمبلی انتخابات میں وہ ہار گئے اور نیشنل کانفرنس نے کانگریس کے ساتھ اتحادی طور جموں کشمیر میں حکومت بنائی۔

سنہ 2015 میں مرحوم مفتی محمد سعید کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا اور سعید نے دوسری بار بحیثیت ریاستی وزیر اعلیٰ کمان سنبھالی۔ تاہم اتحادی حکومت کے ایک سال گزر جانے کے بعد مفتی محمد سعید علیل ہوگئے اور کئی روز دلی کے ایمس ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ان کی وفات ہوگئی۔

وزیر اعظم نریندر مودی دلی کے ایمس میں ایک بار بھی علیل مفتی کو دیکھنے نہیں گئے اور نہ ہی انکی آخری رسومات میں شرکت کی۔ لوگوں کی ایک قلیل تعداد نے مرحوم سعید کا جنازہ پڑھا جو انکی گرتی ہوئی عوامی ساکھ کا مظہر تھا۔ دسمبر 2015 میں سرینگر میں ایک عوامی جلسے میں مفتی سعید کو اسوقت ہزیمت کا سامنہ کرنا پڑا تھا جب نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہیں کشمیر معاملے پر کسی کی مشاورت کی ضرورت نہیں ہے۔ مفتی سعید نے اسی جلسے میں کشمیر مسئلے کے حل کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی وکالت کی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بھاجپا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مفتی سعید نے تاریخی غلطی کی جس کا خمیازہ ریاستی درجے کی تنزلی اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے چھن جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ انکا کہنا ہے کہ مفتی سعید ، اپنے سیاسی تجربے کے باوجود نریندر مودی اور بھاجپا کے عزائم کو سمجھنے میں ناکام رہے۔

مفتی محمد سعید کی موت کے بعد ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی اور بھارت کی حکمران بی جے پی کے درمیان اتحادی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے کئی ہفتوں تک کشمکش جاری رہی۔ تاہم تقریباً تین ماہ بعد محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیا۔

تاہم 19 جون سنہ 2018 میں بی جے پی کے جموں وکشمیر حکومت سے الگ ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد جموں کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ محبوبہ مفتی ریاست کی ناکام ترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوئیں کیونکہ انکے دور میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہوئی افراتفری سے ریاست کبھی باہر نہیں آسکی۔ انکے ہی دور اقتدار میں کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کا ہوس کا نشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کردیا گیا۔

غور طلب ہے کہ سنہ 2015 میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت اتحادی حکومت قائم کی گئی تھی جسے ایجنڈا آف الائنس کا نام دیا گیا۔

سیاسی نقطہ نظر کے لحاظ سے دونوں پارٹیوں کے نظریات یکسر مختلف تھے، اس لیے کانگریس سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے بی جے پی - پی ڈی پی اتحاد کی مخالفت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں :ڈوڈہ: برسی کے موقع پر مفتی سعید کی خدمات کو یاد کیا گیا

ادھر مرحوم مفتی محمد سعید کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کو سب سے بڑا منڈیٹ ملا ہے لہذا یہ ریاست کی امن ترقی خوشحالی اور خاص کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، تاہم حکومت سازی کے بعد مختلف مسائل کو لے کر دونوں پارٹیوں کے درمیان ان بن شروع ہو گئی۔ سب سے زیادہ اختلافات اس وقت شروع ہو گئے جب مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی وزیر اعلی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

محبوبہ مفتی نے رمضان المبارک میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ بندی کا فیصلہ کیا تھا جسے بی جے پی نے واپس لے لیا جس کے بعد دونوں پارٹیوں میں گہرے اختلافات ابھر کر سامنے آگئے۔

اس وقت سیاسی مبصرین نے بھی اتحاد ٹوٹنے کی پیشگوئی کی تھی اور بعد میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو اس بات کی بھنک تک لگنے نہیں دی اور حکومت سے حمایت واپس لے لی۔

یہ بھی پڑھیں :Mufti Sayeed’s Death Anniversary: مفتی سعید کی چھٹی برسی پر سجاد لون کا خراج عقیدت

مفتی سعید کے انتقال کے بعد انکی قائم کردہ پارٹی زوال کا شکار ہوگئی ہے۔ کئی سینئر رہنماؤں نے پارٹی کو خیر باد کہا جبکہ پی ڈی پی کے متعدد سابق لیڈروں نے ’اپنی پارٹی‘ تشکیل دی جسے بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ کہا جارہا ہے۔

Last Updated : Jan 11, 2022, 9:16 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details