ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ویڈیو کانفرنسنگ میں پاکستان کو چھوڑ کر تمام باقی ممبر ممالک کے وزراء اعظم یا صدور شریک ہوئے۔
پاکستان کی جانب سے اس ویڈیو کانفرنسنگ میں ایک جونیئر ہیلتھ منسٹر ظفر مرزا وزیراعظم عمران خان کے مشیر کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس نوعیت کے سارک اجلاس کے انعقاد کی تجویز جمعہ کو سامنے آئی تھی۔
تجویز سامنے آنے کے بعد صرف ایک دو گھنٹے کے اندر اندر ہی تمام سارک لیڈران نے اس کی منظوری دی۔ نتیجے کے طور پر اتوار کے روز یہ اعلیٰ سطحی ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک سار ک ممالک پر مشتمل خطے میں، بھاری آبادی کے باوجود کورونا وائرس سے متاثرہ لگ بھگ 150مثبت کیس ہی سامنے آچکے ہیں۔ جبکہ چین اور اٹلی میں اس وبا کے متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
سارک ممالک نے اس وباء کے پھیلاؤ کے حوالے سے نتائج کا انتظار کرنے کے بجائے خبردار ہوجانے اور بعض پیشگی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا،’’ یہ طے پایا گیا ہے کہ سب سے پہلے پڑوسی ممالک کے ساتھ رابطہ کیا جائے اور ضروری اقدامات کئے جائیں کیونکہ پڑوسی ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں ۔ یہ سرحدیں غیر محفوظ بھی ہیں اور اسکے علاوہ ان ممالک میں اس وباء کے حوالے سے کم و بیش یکساں صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔‘‘
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووِڈ19کے حوالے سے سارک سے جڑے ہر ملک کو الگ الگ طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ جیسے کہ مالدیپ کے پاس اس وبا سے نمٹنے کے لیے محدود وسائل ہیں۔ سری لنکا اور نیپال کا مسئلہ یہ ہے کہ ان ممالک میں اٹلی اور چین جیسے ممالک سے سیاح بڑی تعداد میں آتے رہتے ہیں۔ افغانستان کا چین کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ سارک ممالک میں آپسی تعاون ہو اوریہ ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں ۔
چونکہ سارک کچھ عرصہ سے غیر متحرک ہے ۔ اس لئے آج بہت دنوں کے بعد اس طرح کے اجلاس کی اہمیت ہے۔ تاہم سارک کو سیاسی معاملات کے حوالے دوبارہ متحرک کرنے کی بات کرنا ابھی قبل ازوقت ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سارک2016ء میں اُس وقت سے غیر متحرک ہوا تھا ، جب پاکستان کو اس کی میزبانی کرنی تھی ، اُوڑی حملے کے پیش نظر بھارت نے اس میں شمولیت سے انکار کیا۔ اُس وقت سے سارک کی سرگرمیاںبند پڑی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سارک ویڈیو کانفرنسنگ کی تجویز پر ابتدا میں مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے فیصلہ کیا کہ عمران خان اس ویڈیو کانفرنسنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ حالانکہ باقی ممالک کے سربراہوں نے اس ویڈیو کانفرنسنگ کی اہمیت کے احساس کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی علیل تھے اور انہیں ایک اہم جراحی کے بعد صرف ایک دن پہلے ہی اسپتال سے رخصت کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ انہوں نے اس ویڈیو کانفرنسنگ میں خود شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران پاکستانی نمائندے نے اُس وقت کشمیر کا ذکر کیا ، جب انہیں ایک پرچی تھما دی گئی ۔ذرائع نے پاکستان کی جانب سے اس ویڈیو کانفرنسنگ میں کشمیر کا تذکرہ کرنے کوایک 'گستاخی' اور 'غیر ضروری' حرکت قرار دیا ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے کہا، ’’ہمارے دوست( پاکستان) نے ایک انسانی اقدام کو سیاست ذدہ کرنے کی کوشش کی ۔‘‘
ذرائع نے کہا، ’’ سارک کو دوبارہ فعال کرنے سے متعلق بات کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔اس وقت ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سارک کا اجلاس ایک ایمرجنسی کی وجہ سے ہوا ۔ اب اس اجلاس کا رخ کسی اور جانب سے موڑا جائے ، اس پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔پاکستان نے جو کچھ کیا ، اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
بھارت کووِڈ 19کے پھیلائو کے بعد سے اب تک اپنے 1444 شہریوں کو دُنیا کے مختلف ممالک سے نکال لایا ہے۔ اب تک766بھارتی شہریوں کو چین سے، 124کو جاپان سے 336کو ایران سے اور 218کو اٹلی سے نکال لایا جاچکا ہے۔تاہم بھارت نے وبا سے متاثر ہ اپنے شہریوں کو واپس نہیں لایا بلکہ انہیں ان ہی ممالک میں رہنے دیا جہاں وہ ہیں ۔ ایسا احتیاطی اقدام کے طور پر کیا گیا۔
اِس وقت بھی بھارت اٹلی اور ایران سے اپنے اُن شہریوں کو واپس لانے کی تیاری کررہا ہے ، جو وبا سے متاثر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت امور داخلہ کی ایک خصوصی سیل ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں کووِڈ 19کے حوالے سے رات دن کام پر لگی ہوئی ہے۔مختلف ممالک ، جہاں تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں ، سے بھارتی طلبا کو نکال لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔کیونکہ ان ممالک میں ہوسٹلوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔
سارک ممالک پر مشتمل خطے کے حوالے سے بھارت نے ’سارک وبائی فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں بھارت نے اپنا ابتدائی تعاون دس ملین امریکی ڈالر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے پڑوسی ممالک کی مدد کے لئے ان کی گزارش پر فوری میڈیکل ٹیمیں روانہ کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔اتوار کو ہوئے اجلاس کے تسلسل میں مزید اقدامات سارک ممالک کے خارجہ سیکرٹریز کریں گے۔ بھارت نے مالدیپ کی گزارش پر 48گھنٹے کے اندر اندر اپنی فوری طبی ٹیم بھیج دی ۔ بھارت ایران کی جانب سے بھی اسی طرح کی ایک گزارش پر انسانی بنیادوں پر غور کررہا ہے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا ، ’’ہم نے وبائی فنڈ کا ڈھانچہ قائم کرنے کی تجویز یوں ہی نہیں دی۔ در اصل ہم ہر ممکن حد تک موثر اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ذرائع نے مزید کہا کہ بھارت امکانی طور پر G20اسٹریٹجی کے ساتھ سارک کو جوڑنے کی تجویز بھی دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاکہ اس عالمی وباکے خلاف آن لائن نظام کے تحت لڑا جاسکے