اگرچہ لوگ ٹوجی انٹرنیٹ خدمات آٹھ گھنٹوں تک معطل رہنے کے باعث سوشل میڈیا پر اس بارے میں بھرپور انداز میں اظہار خیال نہیں کرسکے تاہم ہڑتال کی وجہ سے لوگ گھروں میں ہی رہنے کے باعث جہاں ٹی وی سیٹوں پر انتخابی نتائج کی پیشرفت سے لگاتار اطلاعات حاصل کرتے رہے۔ وہیں بند دکانوں اور پارکوں میں بھی عآپ کی کارکردگی بالخصوص اروند کیجریوال کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی کامرانیوں و کمزوریوں کے مختلف زاویوں اور گوشوں پر بھی گفتگو اور بحث میں مصروف رہے۔
دلی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج وادی کشمیر میں عوامی دلچسپی کا باعث بنے تاہم بیرون وادی کشمیر مقیم کشمیریوں نے دہلی انتخابات کے نتائج کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنے اپنے تاثرات کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی مجھبی اور تقسیمی سیاست عوام کو اب اپنی اور مائل نہیں کر پا رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی نیاز الٰہی کا کہنا تھا کہ "دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد بی جے پی کو لگ رہا تھا کہ وہ ایسا کرکے وہ ملک میں عوام میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کریں گے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا کیوں کہ عوام کشمیر سے زیادہ ملک کے اقصادی حالات، بڑتی بیروزگاری اور ترقی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "کشمیر کی حالت کیا سے کیا ہو گئے اور کون ذمےدار ہے؟ عوام سب سمجھتی ہے۔ اس لیے بی جے پی کو اپنی پالیسیز پر گور فکر کرنا چاہیے۔ "
وہیں صحافی فردوس احمد کا کہنا تھا کہ " بی جے پی عوام میں اپنی مقبولیت گوا چکی ہے۔ وادی میں جموریت کا خون کرنے کے بعد یہاں کے سیاست دنوں کو قائد رکھنے سے اُن کو فائدہ نہیں نکسان ہی ہو رہا ہے۔ عوام اُن کے سسیت کو پسند نہیں کر رہے جس وجہ سے دہلی جیسے ناتائیج سامنے آرہے ہیں۔"
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے دلی انتخابی نتائج پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے دلی والوں سے تاکید کی تھی کہ اپوزیشن کو بجلی کا کرنٹ دیں وہ خود ہی جھلس گئے۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے دلی انتخابی نتائج پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے دلی والوں سے تاکید کی تھی کہ اپوزیشن کو بجلی کا کرنٹ دیں وہ خود ہی جھلس گئے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اروند کیجریوال سے کوئی امید وابستہ ہی نہیں ہے تاہم پھر بھی لوگ دلی میں ایک بار پھر عآپ کے بر سر اقتدار آنے کے خواہش مند ہیں۔
ایک شہری نے بتایا کہ اروند کیجریوال نے آئینی دفعات 370 و 35 اے کی تنسیخ اور جموں کشمیر کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے مرکزی فیصلوں کی حمایت کی تھی جس کے باعث اہلیان کشمیر میں ان کی امیج متاثر ہوئی۔
انہوں نے کہا: 'اہلیان کشمیر اروند کیجریوال کو ایک اچھا اور دانشمند سیاسی لیڈر گردانتے تھے لیکن جب مرکز نے دفعہ 370 و دفعہ 35 اے کو ہٹایا اور ریاست کا درجہ گھٹاکر اسے یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا تب سے لوگوں کے دلوں میں ان کی امیج متاثر ہوئی کیونکہ لوگوں کا ماننا ہے کہ متذکرہ دفعات قومی نوعیت کے معاملے تھے لیکن ریاست کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے پر انہیں مرکز کی حمایت نہیں کرنی چاہئے تھی جبکہ خود وہ دلی کے لیے ریاست کا درجہ طلب کررہے ہیں'۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار نے کہا کہ کشمیریوں کو دلی کی سیاسی ہل چل اور اتھل پتھل سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی سرکار اقتدار میں آئی ہے تب سے لوگوں کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک شہری نے کہا کہ وادی میں لوگ اروند کیجریوال کو ان کی انتظامی صلاحیتوں کے تئیں پسند کرتے ہیں اور دلی میں تعلیم، صحت اور دیگر زمینی سطح کے امور میں بہتری لانے پر ان کے لئے رطب اللسان بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دلی میں سرکار کس کی بنے گی کشمیریوں کو اس سے کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔