کوروناوائرس کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے بیچ جہاں لوگ گھروں میں ہی محصور ہیں۔ وہیں تمام سیاسی ،سماجی اور مذہبی اجتماعات پر بھی مکمل طور پابندی عائد ہے۔
دوسری جانب ماہ صیام کے اس مقدس ایام کے دوران امام و موذن کے علاوہ متعین صرف دو سے تین افراد ہی مساجد میں پنجگانہ نمازادا کررہے ہیں۔
عالمی وبا کے خطرات اور خدشات کے پیش نظر اعتکاف کا اہتمام کس طرح ہوگا اس پر معروف عالم دین سعید الرحمن شمس نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تفصیلات فراہم کیں۔
اجتماعی عبادات پر پابندی کے بیچ اعتکاف کا عمل انہوں نے کہاکہ مفتیان کرام، مشائخ اور علمائے دین کے مطابق کوشش ہونی چائیے کہ ہر بڑی مسجد میں کم از کم ایک فرد اعتکاف کر لے اور اس میں جاری لاک ڈاؤن کی بھی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر کسی جگہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک بھی شخص اعتکاف نہیں کر پا رہا ہے تو موجودہ صورتحال میں محلہ والے سنت چھوڑنے کے مرتکب نہیں کہلائیں گے۔
انہوں نے کہا 'سنت و قرآن کی روشنی میں علما نے کہا کہ مرد حضرات کے اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے یعنی وہ گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ خواتین اپنے گھر کی خاص جگہ پر جو عموماً نماز وغیرہ کے لیے مخصوص کر لی جاتی ہے اس میں اعتکاف کر سکتی ہیں۔'
واضح رہے ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے اور اس آخری عشرے میں اعتکاف کا عمل بھی شروع ہوگا۔
اعتکاف سے مراد انسان دنیاوی زندگی سے علاحدگی اختیار کرکے خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرے تاکہ خلوت گزیں ہو کر اﷲ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کرسکے۔
یاد رہے پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے سے اللہ تعالی کے ساتھ جو خاص تقلق اور قربت پیدا ہوتی ہے وہ تمام عبادات میں ایک نرالی شان رکھتی ہے۔
نفلی اعتکاف تھوڑی دیر کے لیے بھی ہوسکتا ہے، لیکن مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے۔ جو سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی محلہ، گاؤں یا علاقے میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔
ماہ صیام کے 20 تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ وقت قبل اعتکاف شروع ہوجاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعے خدا وند کریم سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے۔ جس میں عبادت کرنا اللہ تعلی کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔