سری نگر (جموں و کشمیر):پولیس بیان کے مطابق کشمیر میں مقیم چند صحافیوں اور نامہ نگاروں کو براہ راست دھمکی دئے جانے کے بعد ایک ایف آئی آر نمبر 82/2022 قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت، دہشت گردی کے ہینڈلرز، سرگرم عسکریت پسندوں اور کالعدم تنظیم لشکر طیبہ اور اسکی ذیلی شاخ ٹی آر ایف سے وابستہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ Search Operation Across Kashmir
جموں و کشمیر پولیس بیان کے مطابق ’’تحقیقات کے دوران تشکیل دی گئی ٹیموں - ہر ایک ٹیم میں 4-5 ممبران شامل کیے گئے تھے، کی قیادت ایک انسپکٹر/ایس آئی رینک کا افسر کر رہا تھا، اور نگرانی متعلقہ ایس ڈی پی او انجام دے رہا تھا - نے وادی کشمیر کے کئی مقامات پر چھاپے مارے۔ چھاپوں کی نگرانی ایس پی ساؤتھ سٹی سری نگر لکش شرما نے کی اور 12 مقامات پر بیک وقت تلاشی شروع کی۔ وادیٔ کشمیر سے فرار افراد بشمول سجاد گل اور مختار بابا کے علاوہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ٹی آر ایف) کے سرگرم دہشت گردوں اور سری نگر، اننت ناگ اور کولگام اضلاع میں دیگر مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپہ مارا گیا۔‘‘ Raids Across Kashmir in connection with Threat to Scribes
پریس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’جن مقامات، گھروں پر چھاپہ مارا گیا اور تلاشی لی گئی ان میں نگین کے محمد رفیع، اننت ناگ میں خالد گل، لال بازار میں راشد مقبول، عیدگاہ میں مومن گلزار، کولگام میں باسط ڈار، رعناواری میں سجاد کرالیاری، صورہ میں گوہر گیلانی، قاضی شبلی اننت ناگ میں، سجاد شیخ المعرف سجاد گل ایچ ایم ٹی سری نگر، مختار بابا نوگام، وسیم خالد راولپورہ اور عادل پنڈت خانیار سری نگر کی رہائش گاہیں شامل ہیں۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے کہ تلاشی کے دوران تمام قانونی ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ ’’تلاشی کے دوران، تمام قانونی ضابطوں کی پیشہ ورانہ طور پر پیروی کی گئی اور تلاشی کے نتیجے میں کچھ مشتبہ افراد کو جانچ اور پوچھ گچھ کے لیے لایا گیا ہے۔ متعلقہ تلاشی ٹیموں کے ذریعے ضبط کیے گئے مواد میں موبائل، لیپ ٹاپ، میموری کارڈ، پین ڈرائیوز اور دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز، دستاویز، بینک کے کاغذات، ربڑ سٹیمپ، پاسپورٹ، دیگر مشتبہ کاغذات، نقد رقم، سعودی کرنسی وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ پولیس نے جن مقامات پر چھاپے مارے ہیں ان میں بیشتر رہائش گاہیں مقامی نامہ نگاروں اور صحافیوں کی ہیں تاہم پولیس بیان میں انہیں صحافی کے طور شناخت نہیں کی گئی ہے۔ نیز پولیس کی جانب سے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا طلب کیے گئے افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے یا محض پوچھ تاچھ کے بعد انہیں رہا کیا جائے گا۔