اردو

urdu

ETV Bharat / state

ڈی پی ایس کیوں رکھ رہا ہے بچوں کو آن لائن کلاسز سے محروم؟

والدین نے ڈی پی ایس اسکول کے اس رویے پر انتظامیہ خاص کر ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔

DPS
ڈی پی ایس

By

Published : Mar 18, 2021, 10:59 PM IST

کشمیر وادی میں طویل عرصے کے بعد اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونے کےچند دنوں بعد ہی سرینگر میں قائم ایک مشہور ومعروف دہلی پبلک نامی نجی اسکول نے اپنی من مانیاں شروع کرتے ہوئے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

ڈی پی ایس
اصل میں ڈی پی ایس انتظامیہ کی جانب سے متعدد پرائمری سطح کے طلبا و طالبات کو آئن لائن کلاسز کی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
والدین کے ایک گروپ نے بتایا کہ اسکول میں ٹیوشن فیس اور سالانہ فیس ادا کرنے کے باوجود بھی اسکول بلاجواز طلبہ کو آن لائن کلاسز کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ والدین کے مطابق ڈی پی ایس اب منمانے طریقے سے کورونا وائرس کے دوران اسکول بند رہنے کے باجود بس فیس اور سرمائی سیزن کے دوران دیگر چارجز کا تقاضہ کر رہا ہے جن سے بچوں نے گزشتہ ایک برس کے زائد عرصے سے استفادہ ہی نہیں کیا ہے۔
والدین نے الزمات عائد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ نجی اسکول سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ ہی ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کی جانب سے دیے گئے ہدایات اور نہ ہی فیس فکسیشن کمیٹی کے احکامات کو خاطر میں لایا جا رہا ہے۔ وہیں ان سروس چارچز کو وصولنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا فائدہ بچوں کو ملا ہی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: موسم بہار کی آمد سے پھر لوٹی جھیل ڈل میں رونقیں


ایک والد نے اپنی رودداد سناتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں انہوں نے بس فیس کو چھوڑ کر اپنی بیٹی کا ٹیوشن فیس سمیت سالانہ فیس جمع کروایا لیکن اس کے بعد بھی انہیں فون پر دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے بس فیس اور دیگر فیس ادا نہ کیا تو ان کی بچئ کو آن لائن کلاس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈی پی ایس یہ طریقہ کار سرکاری احکامات کی صریح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ والدین نے ڈی پی ایس اسکول کے اس رویہ پر انتظامیہ خاص کر ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کو مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ والدین اور اسکول میں زیر تعلیم بچوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔

ادھر دہلی پبلک اسکول انتظامیہ نے اس معاملے کے تعلق سے کسی بھی طرح کے تبصرے سے انکار کیا ہے۔ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ان کا اس تعلق سے کوئی جواب موصول ہوتا ہے تو اس خبر کو اپڈیٹ کیا جائے گا اور ان کی تبصرے کو بھی خبر میں شامل کیا جائے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details