پارٹیوں کی جانب سے منعقدہ ان اجلاس میں شرکت کرنے والے چھوٹے رہنماؤں کی گمنامی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بیشتر رہنما میڈیا کے لیے اجنبی اور انجان تھے۔
سیاسی رہنماؤں کی نظربندی کے بیچ محدود سیاسی سرگرمیاں بحال ذرائع کے مطابق نیشنل کانفرنس کے سرینگر میں واقع نوائے صبح کمپلیکس کے ہیڈ کوارٹر میں پیر کے روز پارٹی کے صوبائی سکریٹری شوکت احمد میر کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کے بعض سابق ارکان اسمبلی کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں ضلع صدور و کارکنوں نے شرکت کی۔
صوبائی سکریٹری شوکت میر نے اجلاس کے حاشئے پر میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے لیڈروں بالخصوص ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی مسلسل نظر بندی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لیڈروں کی نظربندی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
موصوف سکریٹری نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ در اصل ملک میں رہائش پذیر مختلف مذہبوں کے لوگوں کو منقسم کرکے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنا ہے۔
ادھر پی ڈی پی کے شیر پارک سرینگر کے متصل واقع ہیڈ کوارٹر پر بھی پیر کے روز پارٹی کے چھوٹے رہنما اور کارکنوں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں مختلف النوع سیاسی معاملات پر گفت وشنید کی گئی۔
پارٹی کے ایک لیڈر، جو میڈیا کے لیے انجان تھا، نے اجلاس کے حاشئے پر میڈیا کو بتایا کہ ہمیں اپنے محبوس لیڈروں بالخصوص پارٹی صدر محبوبہ مفتی کے ساتھ ملاقی ہونے کی اجازت ہی نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے محبوبہ مفتی کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ بھی رابطہ کیا لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے لیڈر کس حال میں ہیں۔
موصوف لیڈر نے سوالیہ انداز میں کہا کہ جس جمہوریت میں سیاسی لیڈروں کو بند رکھا جارہا ہو وہ کس قسم کی جمہوریت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وادی میں سیاسی سرگرمیاں بحال ہونی چاہئے اور محبوس سیاسی لیڈروں کو ترجیحی بنیادوں پر رہا کیا جانا چاہئے۔ وادی میں سیاسی سپیس کا گلا دبایا جارہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں سیاسی جماعتوں کے بیشتر قد آور لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ ڈاکٹر فاروق پر عائد پی ایس اے میں توسیع کی گئی۔